اھل بیت علیھم السلام عارفوں کے لئے سر مشق



اھل بیت علیھم السلام نوری حقائق ھیں یہاں تک کہ ان کا جسم او ربدن بھی ان کے نوری وجود سے متاٴثرھے اور جن کے دل میں نفس کی پاکیزگی اور حقیقت سے عشق و محبت کی وجہ سے نور قرار دیا گیا ھے؛ وھی اھل بیت علیھم السلام کی حقیقت کو دیکھتے ھیں اور خود ان کی اقتدا کرتے ھیں اگرچہ سر کی آنکھوں سے محروم ھوں!

جناب ابو بصیر کہتے ھیں: میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ مسجد میں وارد ھوا، لوگوں کو آتے جاتے دیکھا، امام علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: لوگوں سے پوچھو کیا مجھے دیکھ رھے ھیں؟ میںنے جس سے بھی سوال کیا کہ کیا امام باقر (علیہ السلام) کو دیکھتے ھو؟ وہ کہتا تھا: نھیں، جبکہ امام علیہ السلام اس کے مقابل کھڑے ھوتے تھے، اس موقع پر ابوہارون مکفوف (جو دونوں آنکھوں سے نابینا تھے) مسجد میں تشریف لائے، میں نے ان سے سوال کیا: کیا حضرت محمد باقر (علیہ السلام) کو دیکھ رھے ھو؟ انھوں نے جواب دیا: جی ہاں، اور پھر انھوں نے امام علیہ السلام کی طرف اشارہ (بھی) کیا اور کہا: کیا تم نھیں دیکھ رھے ھو امام (علیہ السلام) وہاں کھڑے ھوئے ھیں، میں نے ان سے سوال کیا: تم نے کس طرح سمجھا؟ تم تو نابینا ھو؟ انھوں نے جواب دیا: میں کس طرح امام کو نہ دیکھوں اور نہ جانوں حالانکہ امام چمکتا ھوا نور ھے[12]!!

جی ہاں سر کی آنکھوں سے نابینا لیکن دل کی آنکھوں سے بینا، حقیقت کو چاھے کچھ بھی ھو اور کھیں بھی ھو اور کسی بھی جلوے میں ھو دیکھتا ھے ، لیکن سر کی آنکھوں سے بینا اور دل کی آنکھوں سے نابینا اگرچہ حقیقت اس کے سامنے بھی ھو تو بھی وہ اسے نھیں دیکھتا، یھی نھیں بلکہ اس کی تکذیب اور اس کے انکار کے لئے اٹھ کھڑا ھوتا ھے!

ممکن ھے کوئی شخص پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) اور اھل بیت علیھم السلام کے سلسلہ میں گفتگو کرے یا ان کی تاریخ پڑھے یا ان کے سلسلہ میں کتاب لکھے لیکن ان کو نہ دیکھے یا دوسرے الفاظ میں: ان کے ظاہر کو دیکھے لیکن ان حضرات کی شخصیت اور عظمت کو نہ دیکھتا ھو، جیسا کہ عیسائی اور لامذہب دانشوروں نے بزم ربوبیت کے ان شاہدوں اور الوھیت کی نشانیوں کے بارے میں کتابیں لکھی لیکن ان پر ایمان نہ لائے اور تحریف شدہ ثقافت اور اپنے جھل کے ھولناک گڑھوں میں باقی رھے اور ختم ھوگئے!

حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام کے حالات زندگی میں ملتا ھے[13] کہ قید خانہ میں ہر روز طلوع آفتاب سے زوال کے وقت تک سجدہ اور عبادت و مناجات میں مشغول رہتے تھے، ہارون دن میں جب زندان کی چھت پر جاتا تھا اور قید خانے کے روشن دان سے قید خانہ کے اندر دیکھتا تھا قید خانہ کے گوشہ میں صرف کپڑا دیکھتا تھا، ایک روز اس نے داروغہ زندان ”ربیع“ سے کہا:

”مَاذاکَ الثَّوْبُ الَّذِی اٴَرَاہُ کُلُّ یَوْمٍ فِی ذَلِکَ المَوْضِعِ؟“

”اے ربیع! وہ کپڑا کیسا ھے جس کو میں ہر روز وہاں دیکھتا ھوں ؟“۔

ربیع نے جواب دیا:

”مَاذَاک بِثُوْبٍ، وَاِٴنَّمَاھُوَ موسَی بْنُ جَعْفَر، لَہُ کُلَّ یَوْمٍ سَجْدَةٌ بَعْدَ طُلُوعِ الشَّمسِ اِٴلَی وَقْتِ الزَّوَالِ۔“[14]

”وہ کپڑا نھیں ھے بلکہ موسیٰ بن جعفر (علیہ السلام) ھیں ہر روز طلوع آفتاب کے بعد سے زوال تک سجدہ میں رہتے ھیں“۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next