آسان مسائل " آیه الله العظمی سیستانی" (حصہ چهارم)



امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:

”ولا ینظر اللہ الی عبدہ ولا یزکیہ لو ترک فریضۃ من فرائض اللہ اوار تکب کبیرة من الکبائر“

خدا اس بند ے کی طرف نہیں دیکھے گا اور نہ اس کی اصلاح کرے گا جو واجبات میں سے کسی واجب کو ترک کرتا ہے یا گناہ کبیرہ میں سے کسی کا مر تکب ہوتا ہے ۔

آ پ ہی سے مروی ہے:

” ان اللہ امرہ بامر وا مرہ ابلیس بامر ، فترک ماامر اللہ عزو جل بہ وصار الی ما امر بہ ابلیس فھذ ا مع ابلیس فی الدرک السابع من النار“

اللہ نے اپنے (بندہ) کوکسی چیز کا حکم کیا اور ابلیس نے کسی چیز کا اس کو حکم دیا ۔ اس نے اللہ کے حکم کو ترک کردیا اور ابلیس کا حکم بجالایا پس وہ ابلیس کے ساتھ جہنم کے ساتویں درجہ میں ہوگا۔اور اس کے علاوہ بھی منکرات ہیں،کہ جن کے ذکر کا محل یہاں نہیں ہے پس اگر تم چاہو تو حدیث اور فقہ کی کتابوں کی طرف رجوع کر سکتے ہو ۔ میرے والد نے پروقار انداز اور مؤ ثر آواز میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا:اب میں اس امر بالمعروف ونہی عن المنکرکی گفتگو کو ایک بڑے مجہتد کے کلام کو (نقل کرتے ہوئے ) ختم کررہاہوں جس میں فرمایاہے: یہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کےعظیم، اعلی اور محکم افراد سے ہیں ۔خصوصا دین کی ریاست جن کے ہاتھوں میں ہے ان کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی نسبت سختی سے عمل کرنا چاہئے ۔ کہ وہ واجب اور مستحب معروف کی ردا اوڑھ لیں اور حرام و مکروہ منکر کی ردا اتار کر پھینک دیں ۔ اخلاق کریمہ سے اپنے نفس کو مزین اور بداخلاقی سے اپنے نفس کو پاک کرلیں ،اس لئے کہ لوگوں کے معروف انجام دینے اور منکر سے بچنے کایہی ایک کامل سبب ہے خصوصاً اس کو جب بہترین ، پسندیدہ اور خوف زدہ موعظہ سے مزید کامل ترکیا ہوجائے کیونکہ ہر مقام کے لئے ایک نکتہ ہے اور ہرمرض کے لئے ایک دوا ہے ۔ اور نفسوں اور عقلوں کا علاج جسموں کے علاج سے زیادہ سخت ہے ، اسی بناء پرامر بالمعروف ونہی عن المنکر کے جو بلند مرا تب ہیں ان کو بجا لایا جائے ،میرے والد نے فرمایا کہ امربالمعروف نہی عن المنکر کی بحث کے سلسلے میں ہماری گفتگو کا اختتام ہوتا ہے میں نے اللہ کی خالص خوشنودی حاصل کرنے کی امید پر اس کو تمہارے اور دوسرے مومنین بھائیوں کے نفع کے لئے بیان کیا ہے ۔ اب کل ان عام سوالات کے سلسلہ میں گفتگو شروع کی جائے گی کہ جو تم نے اختیار کئے ہیں یا پچھلی بحثوں میں تم کچھ پوچھنا بھول گئے یا تفصیل کے ساتھ کسی سوال کا بیان چاہتے تھے یا کچھ ایسے سولات ہیں جو پچھلی بحثوں میں ہماری گفتگو سے خارج تھے ۔

میں نے کہا بہت اچھی بات ہے اور امید ہے کہ وہ بہت مفید ہوں گے ۔ انھوں نے فرمایا :پس کل کے جلسہ تک انشاء اللہ (ہم رخصت ہوتے ہیں ) کل کے جلسہ کی بحث میں ایک عام گفتگو ہوگی۔

پہلی جزل گفتگو

جیسے ہی میرے والد صاحب میرے پاس سے تشریف لے گئے تو میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے متعلق غورو خوض کرنے لگا تاکہ فقہ کی اس بحث کو کہ جو ایک مستقل موضوع پر مبنی ہے ختم کرکے اس کے بعد آنے والی خاص گفتگو کے لیے آ مادہ ہوجاؤں ۔ ایسی گفتگو کہ جس کے لئے میں سو الا ت اور موضوعات کو معین کروں گا جیسا کہ میں نے اپنے والد سے وعدہ کیا تھا ۔ اور مقرر ہ وقت کے آنے سے پہلے ہی میں نے آنے والی گفتگو کے سلسلے میں چند سوالات کے مجموعہ کا پہلا حصہ تیار کرلیا ۔ اس کے بعد میں کئی گھنٹے تک ان سوالات کے بارے میں سونچتا رہا ۔

اور جب گفتگو کا وقت آیا تو میرے والد صاحب تشریف لائے، سلام اور خدا کی حمد وثناء کے بعد اس عام گفتگو کو شرو ع کیا میں نے سوالات کئے اور والد صاحب نے ان کا جواب دیا ۔ اور میرا پہلا سوال ان قدرتی کھالوں کے بارے میں تھا کہ جو غیر اسلامی ممالک (جیسے یورپ وغیرہ ) میں بنتی اور وہاں سے ہمارے ملک میں وارد ہوتی ہیں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100 101 102 103 104 105 106 107 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 next