انسانی رفعت

علامہ سید علی نقی نقوی(نقن)


اس میں شرط اول یہ ھے کہ حاکم شام کتاب و سنت پر عمل کریں گے اس شرط کو منظورکراکے حضرت امام حسن(ع)نے وہ اصولی فتح حاصل کی ھے جو جنگ سے حاصل ھونا ممکن نہ تھی ۔

ظاھر ھے کہ صلح نامہ کے شرائط میں بنیادی طور پر ایسی ھی چیز درج ھوتی ھے جو بنائے مخاصمت ھو ۔ حضرت امام حسنع نے یہ شرط لگا کر ثابت کر دیا کہ ھماری بنائے مخاصمت معاویہ سے کوئی ذاتی یا خاندانی نھیں ھے بلکہ وہ صرف یہ ھے کہ ھم کتاب اور سنت رسول پر عمل کے طلب گار ھیں اور یہ اس سے اب تک منحرف رھے ھیں ۔ پھر صلح نامہ کی دستاویز تو فریقین میں متفق علیہ ھوا کرتی ھے ۔ وہ دونوں فریق اس کے کاتب ھوتے ھیں ۔ یہ شرط درج کرکے امام حسنع نے حاکم شام سے تسلیم کرا لیا کہ اب تک حکومت شام کا جو کچھ رویہ رھا ھے وہ کتاب و سنت کے خلاف ھے ۔ اگر ایسا نہ ھوتا تو اس شرط کی کیا ضرورت تھی؟

غلط اندیش دنیا کھتی ھے کہ امام حسنع نے بیعت کر لی ۔ میں کھتا ھوں ۔ اگر حقیقت پر غور کیجئے تو جب امام حسنع شریعت اسلام کے محافظ ھیں اور آپ نے اس کا اقرار حاصل کیا ھے کہ حاکم شام کتاب اور سنت کے مطابق عمل کریں گے تو اب یہ فیصلہ آسان ھے کہ جس نے شرائط مانے اس نے بیعت کی یا جس نے شرائط منوائے اس نے بیعت کی ۔ حقیقت میں حضرت امام حسنع نے تو بیعت لے لی ۔ خود بیعت نھیں کی ۔

دوسری شرط یہ تھی کہ تمھیں کسی کو اپنے بعد نامزد کرنے کا اختیار نہ ھو گا اس طرح حضرت امام حسن(ع)نے برفرض مخالفت شرط اول اس ضرر کو جو حاکم شام کی ذات سے مذھب کو پھنچتا محدود بنایا اور آئندہ کے لئے یزید ایسے اشخاص کا سدباب کر دیا۔

خواھانِ حاکم شام زیادہ نمایاں طور پر یہ شرط پیش کرتے ھیں کہ حضرت امام حسنع نے سالانہ ایک رقم مقرر کی تھی کہ یہ تمھیں ادا کرنا ھو گی میں کھتا ھوں کہ یہ شرط اگرچہ مسلم نھیں ھے پھر بھی اگر یہ شرط رکھی ھو تو یہ آئینی حیثیت سے اپنے اصلی حقدار حکومت ھونے کے اعتراف کا فریق مخالف کے عمل سے قائم رکھنا ھے اور اگر زیادہ گھری نظر سے دیکھا جائے تو حضرت رسول خدا کا نصاریٰ سے جزیہ لے کرجنگ کو ختم کر دینا درست ھے تو حضرت امام حسنع کا حاکم شام پر سالانہ ایک ٹیکس عائد کرنا بھی بالکل صحیح ھے ۔ یہ عملی مظاھرہ ھے اس کا کہ ھم نے دب کر صلح نھیں کی ھے بلکہ خونریزی سے بچنے کی ممکن کوشش کی ھے ۔

حضرت امام حسن(ع)کو اس صلح پر برقرار رھنے میں بھی کتنے شدائداور زخم ھائے زبان کا مقابلہ کرنا پڑا ھے مگر مفادِ دینی کے لئے یہ صلح ضروری تھی تو پُرجگری کے ساتھ حضرت(ع)تمام ایذاء و اھانت کے صدموں کو برداشت کرتے رھے ۔ اور دس برس مسلسل پھر گوشہ نشینی کے ساتھ زندگی گزار کر حضرت علی بن ابی طالبع کے ۲۵ سال کے دور گوشھٴ نشینی کا مکمل نمونہ پیش کر دیا۔

اموی ذھنیت والوں کا یہ پروپیگنڈا کہ حسن مجتبیٰ(ع)اپنے والد بزرگوار حضرت علی بن ابی طالب(ع)اور اپنے چھوٹے بھائی حضرت امام حسین(ع)سے مختلف ذھنیت رکھتے تھے اور وہ صلح ان Ú©ÛŒ انفرادی افتاد طبع کا نتیجہ تھی Û” خود اموی حاکم شام Ú©Û’ عمل سے بھی غلط ثابت Ú¾Ùˆ جاتا Ú¾Û’ Û” اس طرح کہ اگر یہ بعد والا پروپیگنڈا صحیح ھوتا تو اس مصالحت Ú©Û’ بعد حاکم شام Ú©Ùˆ حضرت امام حسن(ع)سے بالکل مطمئن Ú¾Ùˆ جانا چاھئے تھا بلکہ حاکم شام Ú©ÛŒ طرف سے واقعی پھر امام حسن(ع)Ú©ÛŒ قدرومنزلت Ú©Û’ مسلمانوں میں بڑھانے اور نمایاں کرنے Ú©ÛŒ کوشش Ú©ÛŒ جاتی Û” بلاتشبیہ جس طرح مشھور روایات Ú©ÛŒ بنا پر جناب عقیل Ú©Ùˆ حضرت علی بن ابی طالب(ع)سے بظاھر جدا کرنے Ú©Û’ بعد ان Ú©ÛŒ خاطرداریوں میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جاتا تھا۔ یھی بلکہ اس سے زیادہ حضرت امام حسن(ع)Ú©Û’ ساتھ ھوتا مگر ایسا نھیں ھوا۔ صلح کرنے Ú©Û’ بعد بھی امام حسن(ع)Ú©Ùˆ آرام اور چین نھیں لینے دیا گیا اور بالآخر زھر دغا سے آپ Ú©Ùˆ شھید کر دیا گیا۔ اسی سے ظاھر Ú¾Û’ کہ حاکم شام بھی جانتے تھے Û” کہ یہ رائے، مسلک، خیال اور طبیعت کسی اعتبار سے بھی اپنے باپ بھائی سے جدا نھیں ھیں Û” یہ اور بات Ú¾Û’ کہ اس وقت انھیں فرض کا تقاضا یھی محسوس ھوا لیکن اگر مصلحت دینی میں تبدیلی Ú¾Ùˆ تو یھی کوئی نیا صفین کا معرکہ پھر آراستہ کر سکتے ھیں اور انھی Ú©Û’ ھاتہ سے کربلا بھی سامنے آ سکتی Ú¾Û’ اسی لئے ان Ú©ÛŒ زندگی اس Ú©Û’ بعد بھی ان Ú©Û’ سیاسی مقاصد Ú©Û’ لئے خطرہ بنی رھی اور جب ان Ú©ÛŒ شھادت Ú©ÛŒ خبر ملی تو انھوں Ù†Û’ اطمینان Ú©ÛŒ سانس Ú¾ÛŒ نھیں Ù„ÛŒ بلکہ اپنے سیاسی ضبط Ùˆ تحمل Ú©Û’ دائرہ سے بھی تجاوز کرکے بالاعلان انھوں Ù†Û’ مسرت سے نعرھٴ تکبیر بلند کیا۔ اس سے صاف ظاھر Ú¾Û’ کہ حسن مجتبیٰ(ع)Ú©ÛŒ صلح کسی مخصوص ذھنیت یا طبیعت کا نتیجہ نھیں تھی Û” وہ صرف فرض Ú©Û’ اس احساس کا تقاضا تھی جو انسانی بلندی Ú©ÛŒ معراج Ú¾Û’ Û”  

 

بقیہ معصُومین(ع) کی سِیرت

خمسھٴ نجباء یعنی پنجتن(ع) پاک کے کردار میں انسانی رفعت کا نمونہ سامنے آ چکا مگر اسلام صرف پچاس ساٹھ برس کے لئے نہ تھا وہ تو قیامت تک کے لئے تھا اور قیامت تک کتنے زندگی کے دوراھے آنے والے ھیں جن کی مثال اس مختصر مدت کے اندر درپیش نھیں ھوئے تھے ۔ اس لئے چودہ معصومین(ع) کی ضرورت ھوئی اور انھیں اتنے عرصہ تک آنکھوں کے سامنے رکھا گیا جتنے عرصہ میں انقلابات کا وہ ایک پورا دور پورا ھو جائے جس کے بعد تاریخ پھر اپنے آ پ کو دھراتی ھے اور جس میں ھر پھر کر وھی صورتیں پیدا ھوتی ھیں جو ذرا بدلی ھوئی شکل میں اصل حقیقت کے لحاظ سے پھلے کی قائم شدہ نظیروں میں سے کسی ایک کے مطابق ھیں اس طرح زندگی کے ھر دوراھے پر ان معصومین(ع) میں سے کسی نہ کسی ایک کی مثال رھنمائی کے لئے موجود ھوگی اور یوں سمجھنا چاھئے کہ ان تمام معصومین(ع) کے کردار سے مل جل کر جس ایک مزاج کی تشکیل ھو گی وہ انسانی کردار کا ھمہ گیر مکمل دستور العمل ھو گا۔

امام حسین(ع)

جس طرح حضرت امام حسن(ع) کی ولادت کے متعلق دو قول ھیں ۲ اور ۳ہ اسی اعتبار سے امام حسین(ع) کی ولادت کے متعلق دو قول ھیں ۳ اور ۴ہ اگر ان کی ولادت ۲ہ میں ھوئی ھے تو ان کی ۳ میں ھے اور اگر ان کی ولادت ۳ میں ھے تو ان کی ۴ہ میں ولادت ھوئی ھے ۔ اس طرح وفات رسول کے وقت ان کو چھٹا یا ساتواں برس تھا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next