انسانی رفعت

علامہ سید علی نقی نقوی(نقن)


یہ تعریف اس وقت مروان امام حسن(ع) کی کر رھا تھا جو دنیا سے اٹھ چکے تھے مگر کیا اس تعریف میں خود حسین(ع) بھی حصہ نہ رکھتے تھے؟ کیا اس طویل مدت میں انھوں نے کوئی جنبش کی جو حسن مجتبیٰ کے سکون کے مسلک کے خلاف ھوتی؟ پھر امام حسن(ع) کے جنازے کے ساتھ جو ناگوار صورت پیش آئی وہ روضھٴ رسول پر دفن سے روکا جانا۔ وہ تیروں کا برسایا جانا۔ یھاں تک کچھ تیروں کا جسدِ امام حسن(ع) تک پھنچنا۔ یہ صبرآزما حالات اور ان سب کو امام حسین(ع) کا برداشت کرنا۔

کوئی شاید کھے کہ حسین(ع) کیا کرتے؟ بے بس تھے مگر کیا کربلا میں حسین(ع) کو دیکھنے کے بعد وہ یہ کھنے کا حق رکھتا ھے؟ کربلا میں تو سامنے کم از کم ۳۰ ھزار تھے اور جنازہ حسن(ع) پر سدراہ ھونے والی جماعت زیادہ سے زیادہ کئی سو ھو گی ۔ حسین(ع) کے ساتھ عباس(ع) بھی موجود ھیں جو اس وقت ۲۲ برس کے مکمل جوان تھے جناب محمد حنیفہ بھی موجود تھے جن کی شجاعت کا تجربہ دنیا کو حضرت علی بن ابی طالب(ع) کے ساتھ جمل اور صفین میں ھو چکا تھا۔ مسلم بن عقیل بھی موجود تھے جنھیں بعد میں پورے کوفہ کے مقابلہ میں تن تنھا حسین(ع) نے بھیج دیا اور انھوں نے اکیلے وہ بے نظیر شجاعت دکھائی جو تاریخ میں یادگار ھے ۔

علی(ع) اکبر بھی بنا برقول قوی اس وقت ۱۵ برس کے تھے جو کربلا کے قاسم سے زیادہ عمر رکھتے تھے اور تمام بنی ھاشم موجود تھے ۔ پھر کچھ تو آلِ رسول کے وفادار غلام تھے اور دوسرے اعوان و انصار بھی موجود ھی تھے اس صورت حال میں حضرت امام حسین(ع) کے عمل کو بے بسی کا نتیجہ سمجھنا کھاں درست ھو سکتا ھے ۔

مگر حسین(ع) خاموش رھتے ھیں اور ان سب کو خاموشی پر مجبور رکھتے ھیں امام حسن(ع) کا جنازہ واپس لے جاتے ھیں جنة البقیع میں دفن کر دیتے ھیں اور اس کے بعد دس برس حسنی صلح کے مسلک پر خاموشی کے ساتھ گزار دیتے ھیں اور اس طرح یہ ثابت ھو جاتا ھے کہ وہ بڑے بھائی کا دباؤ یا مروت اور احترم کا تقاضا نہ تھا بلکہ مفاد اسلامی کا لحاظ تھا جس کے وہ بھی محافظ تھے اور اب یہ اس کے محافظ ھیں ۔

اور ادھر حکومت شام کی طرف سے اس تمام مدت میں ھر ھر شرط کی خلاف ورزی ھو رھی تھی ۔ چن چن کے دوستانِ علی(ع) کو قتل کیا جا رھا تھا اور جلاوطن کیا جا رھا تھا۔ کیسے کیسے افراد؟ حجر بن عدی اور ان کے ۱۶ ساتھی ۔ یہ دمشق کے باھر مرج عذراء میں سولی چڑھا دیئے جاتے ھیں ۔

حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ھیں کہ یہ حجر بن عدی فضلائے صحابہ میں سے تھے ۔ مسائل فقھیہ میں ان کے فتاوےٰ جمع کئے جائیں تو ایک جزو کا رسالہ ھو جائے ۔ مگر علی(ع) کے دوست تھے اس لئے ان کی صحابیت بھی کام نہ آ سکی ۔ کوفہ سے قید کرکے دمشق بلوائے گئے ۔ حاکم شام نے اپنے دربار میں بلا کر ان سے پوچہ گچہ یا صفائی پیش کرنے کا موقع بھی دینا پسند نہ کیا۔ حکم ھو گیا کہ بیرون شھر ھی روک دیئے جائیں اور وھیں سولی دے دی جائے ۔ ان کی شھادت کی خبر اتنی دردناک تھی کہ عبداللہ بن عمر نے اس کا ذکر سنا تو چیخیں مار کر رونے لگے ۔ ام المومنین عائشہ کو اطلاع ھوئی تو انھوں نے کھا۔ آخر معاویہ خدا کو کیا جواب دے گا، کہ ایسے ایسے نیکوکار مسلمانوں کا خون کر رھا ھے ۔

عمرو بن الحمق الخزاعی وہ بزرگوار تھے جنھیں پیغمبر خدا نے غائبانہ طور پر اپنے سلام سے سرفراز کیا تھا ان کا سر کاٹ کر نوک نیزہ پر بلند کیا گیا۔ یہ سب سے پھلا سر تھا جو اسلا م میں نیزہ پر بلند ھوا۔

ان حوادث سے عبداللہ بن عمر اور عائشہ بنت ابی بکر ایسے لوگ اس قدر متاثر تھے تو حسین(ع) بن علی(ع) جن کے والد بزرگوار کی محبت کی پاداش ھی میں یہ سب کچھ ھو رھا تھا جتنا بھی متاثر ھوتے کم تھا۔

پھر حضرت امام حسن(ع) کے دس سال تک سکوت اور عدم تعرض کی جو قیمت ان کو ملی یعنی زھر قاتل اور کلیجے کے بھتر ٹکڑے اور پھر ان کی وفات پر دمشق کے قصر سے اظھار مسرت میں اللہ اکبر کی بلند آواز…ان سب باتوں کے بعد حضرت امام حسین(ع) کی خاموشی ۔ کیا کسی میں ھمت ھے جو اس وقت کے حسین(ع) پر جنگجوئی کا الزام عائد کر سکے؟

اب اس کے بعد وہ ھنگام آیا جسے امام حسین(ع) کی آنکھیں بیس برس پھلے دیکہ رھی تھیں یعنی حاکم شام نے اپنے بیٹے یزید کی خلافت کی داغ بیل ڈال دی اور اس کے لئے عالم اسلام کا دورہ کیا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next