انسانی رفعت

علامہ سید علی نقی نقوی(نقن)


رِیح النّبوةِ

واری نورالرسالة۔

میں رسول (ص)کے پیچھے یوں رھتا

تھا جیسے ناقہ کا بچہ ناقہ کے پیچھے رھتا ھے ۔ میں نبوت کی خوشبو سونگھتا تھا اور رسالت کی روشنی دیکھتا تھا۔

اب ظاھر ھے کہ ان کو رسول (ص) سے کتنا انس ھونا چاھئے ۔ پھر وہ قرابت کی محبت الگ جو بھائی ھونے کے اعتبار سے ھوناچاھئے اور وہ الگ جو بحیثیت ایک گھر میں رھنے کے ھونا چاھئے اور وہ اس کے علاوہ جو اپنے مربی سے ھونا چاھئے اور وہ اس کے ماوراء جو ان سے بحیثیت رسول (ص) اور ان کے پیغام سے بحیثیتِ حقانیت ھونا چاھئے ۔

ابھی اگرچہ دس برس کی عمر ھے مگر عرب اور بنی ھاشم کے اور وہ بھی اس وقت کے دس برس کے بچے کو اپنے ھندوستان کا اس زمانہ کا دس برس کا بچہ نہ سمجھنا چاھئے اور پھر وہ بھی علی(ع) ایسا بچھ۔ پھر اس وقت تو دس ھی برس کی عمر ھے مگر اس کے بعد ۱۳ برس رسول کے مکہ میں گزرنا ھیں، اور یھی انتھائی پرآشوب اور تکلیف و شدائد سے بھرا ھوا دور ھے ۔ ھجرت کے وقت علی بن ابی طالب (ع) کی عمر ۲۳ برس ھوئی، دس برس سے ۲۳ برس کا درمیانی وقفہ وہ ھے جس میں بچپنا قدم بڑھاتا ھوا مکمل شباب کی منزل تک پھنچتا ھے ۔ یہ زمانہ جوش و خروش کا ھوتا ھے یہ زمانہ ولولہ و امنگ کا ھوتا ھے ۔ بڑھتی ھوئی حرارت، شباب کی منزلیں اس دور میں گزر رھی ھیں ۔ عام انسانوں کے لئے یہ دور وہ ھوتا ھے جس میں نتائج و عواقب پر نظر کم پڑتی ھے انسان ھر دشوار منزل کو سھل اور ھر ناممکن کو ممکن تصور کرتا ھے اور مضرتوں کا اندیشہ دماغ میں کم لاتا ھے ۔ یھاں یہ دور اس عالم میں گزر رھا ھے کہ اپنے مربی کے جسم پر پتھر مارے جا رھے ھیں ۔ سر پر خس و خاشاک پھینکا جاتا ھے ۔ طعن و شماتت کا کوئی وقیقہ اٹھا نھیں رکھا جاتا۔ پھر فطری طور پر یھی سب طعن و تشنیع و شماتت ھر اس شخص کو جو رسول (ص) سے وابستہ ھے اپنی ذات کے لئے بھی سننا پڑتی ھے ۔ خصوصاً اس لحاظ سے کہ رسول (ص)کے ھم یا مقابل پھر بھی سن رسیدہ ھو سکتے ھیں لیکن علی بن ابی طالب (ع) کے ھم عمر جو مخالف جماعت میں تصور کئے جا سکتے ھیں وہ غیرمھذب اور غیرتعلیم یافتہ ھونے کے ساتھ اپنے سن و سال کے لحاظ سے بھی ھر خفیف الحرکاتی پر ھر وقت آمادہ سمجھے جا سکتے ھیں ۔ کون سمجھ سکتا ھے کہ وہ علی ابن ابی طالب (ع) کی جو رسول (ص) سے اتنی شدید وابستگی رکھتے تھے کیسی کیسی دل آزاری کرتے تھے کیا کیا طعنے اور کیا کیا زخم زبان پھنچاتے تھے ۔ اسے کوئی راوی نہ بھی بیان کرے تو بھی ھر صاحبِ عقل کچھ نہ کچھ سمجھ سکتا ھے ۔

اب ممکن ھے کہ اس وقت ابھی دنیاعلی بن ابی طالب (ع) کو بالکل نہ سمجھتی ھو کہ وہ کیا ھیں؟ مگر اب اس وقت تو تاریخ کے خزانہ میں علی بن ابی طالبع کی وہ تصویر بھی موجود ھے جو ھجرت کے ایک سال بعد بدر میں اور پھر دو سال بعد احد میں اور پھر خیبر اور خندق اور ھر معرکہ میں نظر آتی ھے ۔

جذبات کے لحاظ سے، قوت دل کے اعتبار سے، جراٴت و ھمت کی حیثیت سے ۲۲ سال اور ۲۳ سال اور پھر ۲۴۔۲۵ سال میں کوئی خاص فرق نھیں ھوتا۔ یقیناً علیع جیسے ھجرت کے ایک دو اور تین سال بعد بدر واحد اور خندق و خیبر میں تھے ۔ ایسے ھی ھجرت کے وقت اور ھجرت کے دو چار سال پھلے بھی تھے ۔ یھی بازو، یھی بازوؤں کی طاقت، یھی دل اور یھی دل کی ھمت، یھی جوش، یھی عزم، غرض کہ سب کچھ اب بعد میں نظر آ رھا ھے ۔ اب اس کے بعد قدر کرنا پڑے گی کہ اس ھستی میں وہ ۱۳ برس اس عالم میں کیونکر گزارے ۔

اور کوئی غلط روایت بھی یہ نھیں بتاتی کہ کسی وقت علیع نے جوش میں آ کر کوئی ایسا اقدام کر دیا ھو جس پر رسول کو کھنا پڑا ھو کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ یا کسی وقت پیغمبر کو یہ اندازہ ھوا ھو کہ یہ ایسا کرنے والے ھیں تو بلا کر روکا ھو کہ ایسا نہ کرنا۔ مجھے اس سے نقصان پھنچ جائے گا۔

کسی تاریخ اور کسی حدیث میں غلط سے غلط روایت ایسی نھیں حالانکہ حالات ایسے ناگوار تھے کہ کبھی کبھی سن رسیدہ افراد کو جوش آ گیا اور انھوں نے رسول کے مسلک کے خلاف کوئی اقدام کر دیا اور اس کی وجہ سے انھیں جسمانی تکلیف سے دوچار ھونا پڑا۔ مگر حضرت علی بن ابی طالبع سے کسی سے تصادم ھو گیا ھو اس کے متعلق کمزور سے کمزور روایت پیش نھیں کی جا سکتی ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next