انسانی رفعت

علامہ سید علی نقی نقوی(نقن)


امام حسن(ع) کے شرائط صلح پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ھو گا کہ اس صلح کے شرائط میں ان مقاصد کا پورا پورا تحفظ کیا گیا تھا جن کے لئے پھر کربلا کی جنگ ھوئی ۔ یہ نہ دیکھئے کہ بعد میں شرائط پر عمل نھیںھوا۔ بعد میں عمل تو حدیبیہ کی صلح کے شرائط پر بھی نہ ھوا تھا مگر یہ تو ایک معاھدہ صلح کا وقوع میں آیا جب ھی فریق مخالف پر الزام عائد ھو سکا کہ اس نے ان شرائط پر عمل نھیں کیا اور اگر کوئی ایسا معاھدہ ھوا ھی نہ ھوتا تو یہ خلاف ورزی کا الزام فریق مخالف پر کھاں عائد ھو سکتا تھا۔ جب حدیبیہ کے شرائط پر عمل نہ ھوا تو فتح مکہ ھوئی اسی طرح اس صلح پر عمل نہ ھوا۔ تو معرکھٴ- کربلا ھوا۔

معلوم ھوا کہ یہ تاریخی واقعات کی رفتار کا لازمی اقتضاء تھا کہ اس وقت صلح ھو اور اس وقت جنگ ھو ۔ اور وہ حصہ وقت کا امام حسن(ع) کے حصہ میں آیا اور یہ ھنگام امام حسین(ع) کے حصہ میں آیا۔ اگر معاملہ بالعکس ھوتا یعنی ۴۱ہ میں امام وقت امام حسین(ع) ھوتے تو وہ صلح امام حسین(ع) کرتے اور اگر ۶۱ہ میں امام حسن(ع) موجود ھوتے تو یہ جھاد امام حسن(ع) فرماتے ۔

حضرت امام حسن جانتے تھے کہ میرا جھاد ھی صلح کرنا۔ ان کی صلح مقتضائے شجاعت تھی اور امام حسین(ع) کا جھاد تھا یزید کے مقابلہ میں تلوار کھینچنا۔ یہ ان کی شجاعت کا مظاھرہ تھا۔ کیونکہ جس طرح علمائے اخلاق نے بیان کیا ھے شجاعت ھر موقع پر تلوار لے کر بڑھ جانے کا نام نھیں ھے ۔ بلکہ شجاعت قوت غضب کے تابع حکم عقل ھونےکا نام ھے اور یہ قوت غضبیہ کے اعتدال کا درجہ ھے اگر انسان نے بے موقع غصہ سے کام لیا اور قدم آگے بڑھا دیا تو یہ ”تھوُّ“ ھو گا اور اگر موقع آنے پر بھی اس سے کام نہ لیا اور بے محل کمزوری دکھائی تو اس کا نام ”جُبن“ ھو گا یہ دونوں چیزیں شجاعت کے خلاف ھیں ۔ شجاعت یہ ھے کہ بے محل قدم آگے نہ بڑھے اور محل آنے پر خاموشی نہ ھو ۔ ان دونوں رخوں کو حسن(ع) و حسین نے پیش کیا اور اس طرح دونوں نے مل کر شجاعت کی مکمل تصویر کھینچ دی ۔

آئندہ آئے گا کہ حضرت امام حسین(ع) نے بھی صلح کی کوشش میں کوئی کمی نھیں کی یہ تو فریق مخالف کا طرز عمل تھا کہ اس نے وہ تمام شرائط مسترد کر دیئے ۔ اگر دشمن ِشرائط کو منظور کر لیتا تو کارنامہ کربلا بھی صلح پر ختم ھوتا۔ اس کے بعد کسی کو یہ کھنے کا کیا حق ھے کہ امام حسن(ع) طبعاً صلح پسند تھے اور امام حسین(ع) نسبتاً جنگ پسند تھے ۔

اس کا بھی بیان ابھی آئے گا کہ وھاں حاکم شام نے سادہ کاغذ بھیج دیا تھا کہ حسن مجتبیٰ جو چاھیں وہ شرائط لکہ دیں ۔ امام نے شرائط لکھے اور حاکم شام نے ان کو منظور کیا دنیا غلط کھتی ھے کہ امام حسن(ع) نے حاکم شام کی بیعت کر لی ۔ بیعت تو حقیقتاً اس نے کی جس نے شرائط مانے ۔ انھوں نے تو بیعت لے لی ۔ بیعت کی نھیں ۔ اور امام حسین(ع) کے سامنے تھا یزید ایسے شخص سے بیعت کا سوال جسے آلِ محمد میں سے کوئی بھی منظور نھیں کر سکتا تھا۔

امام حسین(ع) زندگی کے اس ایک دن یعنی عاشور کو ھی حسین(ع) نہ تھے وہ اپنی زندگی کے ۵۷ برس میں ھر دن حسین(ع) تھے ۔ پھر آخر صرف ایک دن کے کردار کو سامنے رکہ کر کیوں رائے قائم کی جاتی ھے ۔ آخر اس ایک دن کو نکال کر جو ۵۷ برس ھیں وہ ان کی فھرست حیات سے کیونکر خارج ھو سکتے ھیں اسی طرح حضرت امام حسن(ع) صرف اس دن جب صلح نامہ پر دستخط کئے ھیں اسی وقت امام حسن(ع) نہ تھے ۔ حسن(ع) نام تو اس پوری زندگی کا تھا لھٰذا آپ کی پوری زندگی کو سامنے رکہ کر رائے قائم کرنا درست ھو گا اور اگر صرف ایک حصہ حیات سامنے رکہ کر مخالفین اسلام نے آپ کی یہ تصویر کھینچی کہ آپ کے ایک ھاتہ میں تلوار ھے اور ایک ھاتہ میں قرآن جس طرح یہ تصویر نامکمل اور غلط ھے اسی طرح امام حسن(ع) کے متعلق جو تصویر کھینچی جاتی ھے یا امام حسین کی جو تصویر کھینچی جاتی ھے وہ بھی غلط ھے اور یہ غلطی اتنی عام ھے کہ ان کے نام لیوا تک اور سیرت و کردار کی پیروی پر زور دینے والے بھی ان کا وھی صرف ایک دن کا کردار جانتے اور اسی کو پیش کرتے ھیں اس لئے تقریروں میں گرمی پیدا کرنے کے لئے اور کسی بڑے معرکہ میں قدم بڑھانے کے واسطے خون میں جوش پیدا کرنے کے لئے حضرت امام حسین(ع) کا نام لیتے اور ان کے کارنامہ کو یاد دلاتے ھیں چاھے مقصد صحیح ھو یا غلط اور وہ جو اپنی تمام عمر شھادت سے ایک دن پھلے تک معرکہ آرائی کو ٹالتے رھے وہ حسین(ع) کا کردار گویا نھیں ھے کسی اور کا ھے پوری تصویر تو اسی وقت ھو گی جب پوری سیرت سامنے رکہ کر تصویر کھینچی جائے گی ۔

حسنِ مجتبیٰ ع

امام حسنع کی ولادت ۲ یا ۳ ھجری میں ھوئی ۔ رسول کی وفات کے وقت ساتواں یا آٹھواں برس تھا اور ان کی یہ عمر پوری پیغمبر خدا کے غزوات کی عمر ھے ۔ ۲ ہ میں جنگ بدر ھوئی اور اس کے بعد ان کی عمر کے ساتھ غزوات کی فھرست آگے بڑھی ۔ جس طرح علی کی پرورش پیغمبر کی گود میں تبلغ اسلام کے ساتھ ھوئی ویسے ھی حسن مجتبیٰ کی پرورش رسول کی گود میں رسول کے غزوات اور اپنے والد (حضرت علیع مرتضیٰ) کے فتوحات کے ساتھ۔ ھوئی ان کے بچپن کی کھانیاں اور سوتے وقت کی لوریاں گویا یھی تھیں کہ علیع کسی جھاد سے واپس آئے ھیں ۔ حضرت فاطمہ زھرا (س) سے تذکرہ ھو رھا ھے خندق میں یہ ھوا۔ یہ تذکرے کانوں میں پڑ رھے ھیں اور آنکھیں جو دیکہ رھی ھیں وہ یہ کہ دشمنوں کے خون میں بھری ھوئی تلوار ھے اور سیدھٴ عالم اسے صاف کر رھی ھیں ۔ پیغمبر کے ارشادات بھی گوش زد ھو رھے ھیں کبھی معلوم ھوا کہ آج نانا نے والد بزرگوار کے لئے کھا:

ضرْبةُ علٍیّ یَوْمَ الْخَنْدقٍ اَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الثَقَلین۔ کبھی سنا فرمایا: لَاُعْطَیّن رَایةً غدًا رَجُلاً غَیر فّرارٍ یُحِبُّ اللّٰہ وَرَسُوْلَھ‘… کبھی ملک کی صدا گوش زد ھوئی: لَا فَتٰی اِلَّا علّی لَا سَیف الّا ذوالفقار۔ ان تذکروں کے علاوہ بس ھے تو عبادت اور سخاوت کی مثالوں کا مشاھدھ۔ یہ ھے سات آٹہ برس کا حسنع کا رسول کی زندگی میں دور حیات۔

سات آٹہ برس کی عمر کے بچے چاھے معاملات میں عملی حصہ نہ لیں اور ادب و حفظِ مراتب کی بنا پر بزرگوں کے سامنے گفتگو میں بھی شرکت نہ کریں مگر وہ احساسات و تاثرات، جذبات اور قلبی واردات میں بالکل بزرگوں کے ساتھ شریک رھتے ھیں اور ان کے دلوں کے اندر ولولوں کا طوفان بھی اٹھتا ھے ۔ اور منصوبوں کی عمارتیں بھی کھڑی ھوتی ھیں اور اس وقت کے تاثرات و تصورات کے نقوش اتنے گھرے ھوتے ھیں کہ وہ مٹا نھیں کرتے ۔

یقیناً یہ اتنا زندگی کا دور امام حسنع کے دل و دماغ میں عام انسانی فطرت کے لحاظ سے ولولہ و ھمت کی لھروں میں تموج ھی پیدا کرنے والا تھا سکون پیدا کرنے والا نھیں مگر اس سات آٹہ سال کے بعد ایک دم ورق الٹتا ھے ۔ اب یہ منظر سامنے ھے کہ باپ گوشہ نشیں ھیں ۔ اور ماں گریہ کناں ۔ وہ تمام ناگوار حالات سامنے ھیں جن کا اظھار کسی کے لئے پسندیدہ ھے یا ناپسند۔ بھرحال تاریخ کے اندر وہ موجود اور ھمیشہ کے لئے محفوظ ھیں ۔ یقیناً اگر حضرت علی بن ابی طالبع کا دس برس کی عمر کے بعد ۱۳ برس رسول کے ساتھ رہ کر مکہ کی خاموش زندگی میں خاموشی کے راستے پر قائم رھنا ایک جھادِ نفس تھا تو حسن مجتبیٰ کا بھی ۸ برس کی عمر کے بعد پچیس سال باپ کے صبر و استقلال کے ساتھ ھم آھنگ رھنا ان کا ایک عظیم جھاد تھا۔ وھاں علیع کے سامنے ان کے مربی رسول کے جسم پر پتھر پھینکے جاتے تھے اور وہ خاموش تھے اور یھاں حسنع کے سامنے ان کے باپ علی بن ابی طالبع کے گلے میں رسی باندھی جاتی ھے اور مادر گرامی کے دروازے پر آگ لگانے کے لئے لکڑیاں جمع کی جاتی ھیں اور انھیں ھر طرح کی ایذائیں پھنچائی جاتی ھیں اور حسن مجتبیٰ(ع)خاموش ھیں ۔ اسی خاموشی میں آٹہ برس سے اٹھارہ برس اور اٹھارہ برس سے اٹھائیس برس بلکہ سات آٹہ برس کی عمر کے بعد ۲۵ سال میں ۳۳ برس کے ھوئے مگر وہ جس طرح ساتھ آٹہ برس کے بچپن کے دور میں حضرت علی بن ابی طالبع کے ساتھ ایک کم عمر بچہ کی طرح تھے بالکل اسی شان سے اٹھارہ اور اٹھائیس اور تیس بتیس برس کی عمر کے جوان ھو کر بھی ھیں ۔ مسلک ھے تو باپ کا طریقھٴ کار ھے تو باپ کا۔ نہ ان کے بچپن میں کوئی نادانی کا قدم اٹھتا ھے نہ جوانی میں کوئی جوش کا قدم اٹھتا ھے پھر حضرت علیع نے خاموشی کے ماحول میں آنکہ ھی کھولی تھی اور امام حسنع تو آٹہ برس کی عمر اس جنگ کے ماحول میں گزار چکے تھے جس سے شجاعانہ اقدامات کو طبیعت میں رچ بس جانا چاھئے اس کے بعد ۲۵ سال اس طرح گزار رھے ھیں ۔ اتنی طولانی مدت کے اندر کبھی جوش میں نہ آنا۔ اپنے ھم عمروں سے کبھی تصادم نہ ھونا کسی دفعہ بھی ایسی کوئی بات نہ ھونا جو مصلحتِ علیع کے خلاف ھو ۔ یہ ان کی زندگی کا کارنامہ ھے ۔ یہ اور بات ھے کہ تاریخ کی دھندلی نگاہ حرکت کو دیکھتی ھے سکون کو نھیں ۔ آندھیوں کو دیکھتی ھے سناٹے کو نھیں ۔ شورش طوفان دیکھتی ھے سمندر کے سکون پر نظر نھیں ڈالتی ۔ اسی کا نتیجہ ھے کہ اس دور کے فتوحات جو اکثریتی طاقت نے کئے جزو تاریخ بن گئے اور اسلام کی جو خدمت خاموش رہ کر کی گئی اور اس کے جو نتائج ھوئے وہ تاریخ میں کھیں نظر نہ آئیں گے بھرحال اب یہ ۲۵ سال گزرے اور وہ وقت آیا جب حضرت علی بن ابی طالبع برسراقتدار ھیں اس کے بعد جمل صفین اور نھروان کے معرکے ھیں اور حضرت امام حسنع ان میں اپنے والد بزرگوار حیدرِ کرارع کے ساتھ ساتھ ھیں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next