اجر عظیم



بسااوقات انسان دشمنوں میں گھر جاتا ہے‘ مصائب و آلام یکے بعد دیگرے اُسے پریشان کر دیتے ہیں ۔ مصیبتیں چاروں طرف منڈلا رہی ہوتی ہیں‘ اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مارنے کے لیے جی چاہتا اور کسی ہتھیار کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دشمن کا مقابلہ کرکے اُسے شکست فاش دی جائے اور خود منزل کامرانی تک پہنچنے کی سعی جمیل کی جائے‘ وہ ہتھیار جو اس گرانی‘ پریشانی اور تنگ دامانی میں کام آئے وہ دعا ہے ۔

لازم ہے کہ صبح و شام اپنے رب قدیر کو پکارا جائے تاکہ رزق فراواں ہو اور ہمہ قسم کے دشمنوں سے بھی نجات ملے ۔ بعض اصحاب نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھا: دعا کیا ہے؟

فرمایا: انبیاء کا ہتھیار ہے تم بھی اپنے لیے لازم کرلو ۔

عبداللہ بن سنان ابی عبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں: فرمایا : الدُّعا انفَذَ مِنَ السِّنان ۔

دُعا ردّ بلا ہے

فی زمانہ تقریباً ہر آدمی گرفتار بلا ہے ۔ وہ کسی نہ کسی مصیبت میں ضرور مبتلا ہے‘ خواہ وہ پریشانی کاروبار کی ہو‘ اولاد کی طرف سے ہو‘ رشتہ داروں نے تنگ کر رکھا ہو یا پڑوسی وبالِ جان بنے ہوں‘ بہرحال بلاؤں کا جم غفیرہے جس نے بیچارے بنی نوع انسان کو چہار جہت سے محصور کر رکھا ہے ۔ ایسی کیفیت میں چھٹے امام نے فرمایا: گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ دعا کو ہاتھ سے نہ جانے دو ۔ دعا نازل ہونے والی بلا کو اس طرح توڑ دیتی ہے جیسے دھاگا توڑ دیا جاتا ہے ۔ اگرچہ وہ مستحکم ہو ۔ اسی زمرے میں چوتھے امام کا فرمام بھی ملتا ہے کہ روزِ قیامت تک بلا اور دعا ساتھ ساتھ ہیں لیکن دعا بلا کو ردّ کر دیتی ہے اگرچہ بلا کیسی ہی سخت ہو ۔

فلسفہ دعا سمجھتے ہوئے اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ بلا ہمیشہ سخت ناگوار‘ ناپسندیدہ اور ناقابلِ قبول ہوتی ہے اور یہ مومن/مومنہ کے امتحان کے لیے یاشامت اعمال کا شاخسانہ بن کر آتی ہے ۔ اس کے ساتھ ایک قضا بھی ہے جو نازل ہو چکی ہوتی ہے یا نازل ہونے والی ہے ۔ بہرحال دونوں (بلا و قضا)سخت ہیں اور ان کا مقابلہ بڑے صبروتحمل اور ضبط و نظم کے ساتھ کرنا ہوتا ہے ۔ ان حالات میں معصومین نے ہمارے لیے کچھ ہدایات بطور مشعل راہ چھوڑی ہیں ۔ فرمایا کہ اکثر دعا کیا کرو کیونکہ وہ ہر رحمت کی کنجی ہے اور نجات کا ایک ذریعہ ہے ۔ خزانہ خدا سے تب ہی ملے گا جب مانگو گے اور مانگنے کا انداز سوائے دعا کے نہیں ہے ۔ دستور زمانہ ہے جب دروازہ کھٹکھٹاؤ گے تب ہی کھلے گا ۔ پس دعا سے رب کریم کے ہاں دروازہ ہائے حاجات وا ہوتے ہیں اور رحمن و رحیم کا دَر ایسا دَر ہے جس دروازے سے کوئی خالی ہاتھ نہیں جانتا ۔

ہمارے لیے بڑی بات ہے کہ ہم ارشادات آئمہ کے مطابق مانگنا سیکھ جائیں اور وہ الحمدللہ دعا کے توسل سے ہے ۔ اس سلسلہ میں امام موسٰی کاظم علیہ السلام نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے جسے ابی ولاد نے ہمارے تک پہنچایا ہے ۔ فرمایا امام الہدیٰ نے:"دعا کو اپنے لیے لازم قرار دو اور اللہ سے طلب کرو کیونکہ یہ طلب بلا کو رد کرتی ہے اگرچہ وہ مقدر ہو چکی ہو اور صرف جاری ہونا باقی ہو"۔ فرمایا جب اللہ سے دعا کی جائے گی اور عاجزی و انکساری سے سوال کیا جائے گا تو بلا رد کر دی جائے گی اور قضا بحکم خدا ٹل جائے گی ۔

دعا شفائے مرض ہے

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے عزیز ترین صحابی کمیل ابن زیاد کو جو دعا تعلیم فرمائی تھی اس میں دعا کا ذکر نہایت ارفع و اعلیٰ ہے اور اسی نام کے ساتھ پھر شفاء کو بھی منطبق کر دیا ہے ۔ فرمایا‘ یوں پڑھو:

اِسمُہ دَواءٌ وذِکرُہ شِفَاءٌ۔

"اللہ کی یاد بطور عبادت دوا بھی ہے اور شفا بھی تو جس کا نام لینا شفا ہے"۔ اس کے حضور گڑگڑا کر دعا کرنا کس قدر افراط شفاء کا موجب ہوگا ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 next