اجر عظیم



علابن کامل نے امام ششم کے الفاظ علی بن ابراہیم کے ذریعے سے ہم تک یوں پہنچائے ہیں:

قَالَ لِی ابوعبداللّٰہ عَلَیکَ بِالدِّعَاءِ فَاِنّہ شِفَآءُ مِن کُلِّ دَاءٍ

"دعا کرتے رہا کرو کیونکہ وہ ہر درد کی دوا ہے"۔

دُعا میں تقدم

اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان مصائب و آلام سے گھبرا کر مبہوت ہو جاتا ہے اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کرے‘ ایسے میں اس کے دل میں خیال آتا ہے دعا کر کے دیکھیں شاید بلا ٹل جائے‘ دراصل مصلحت ایزدی سے ایک اشارہ ہوتا ہے کہ میرے بندے دعا مانگ لے‘ جب نزول بلا کا خوف ہو تو گھبرایئے نہیں بلکہ کہیے اللہ ربی‘ اللہ ربی اور پھر دعا کی تیاری کیجیے ۔ فرمایا‘ امام صادق نے:

مَن تخوّف من بلاء یصیبہ فتقدم فیہ بالدعاء لم یرہ اللّٰہ عزَّوجّلَ ذٰلِکَ البَلاء ابدَاً

جس کو نزول بلا کا خوف ہو اس صورت میں اسے پہلے دعا کرنی چاہیے اللہ اُسے کبھی اس بلا کی صورت نہ دکھائے گا ۔

ان حالات میں انسان کے لیے ضروری ہے کہ راحت کے وقت زحمت کے متوقع مکافات کی دعا مانگا کرے‘ ہو سکتا ہے اس بلا کا نزول نہ ہو اور آئندہ لمحات میں آسودہ رہے ۔

دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ دعا کرنے والا خدا کے شاکر بندوں میں شمار ہوگا ۔

رب العزت اسے نگاہ التفات سے دیکھے گا کیونکہ اس نے آسودگی میں آلودگی کو مدنظر رکھا ہے ۔ دعا کے ساتھ اپنے خالق حقیقی کو یاد کرتا رہا ہے اور آنے والی مصیبتوں سے اپنے آپ کو اپنی عاجزی اور انکساری سے بچا لیا ہے ۔ اس زمرے میں خصوصی طور پر یاد رکھنا ہوگا کہ اپنی دعا پر یقین کامل ہونا مساعد حالات میں بھی دعا کو فراموش نہ کرے اور اس اطمینانِ قلب کے ساتھ انے تیقن کو مستحکم رکھے کہ وہ یقینا باب اجابت تک پہنچے گی ۔

نیت دُعاء

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کیا دعا کے لیے نیت ضروری ہے؟



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 next