شاهكار رسالت

مطہرى، مرتضيٰ (آیۃ اللہ شهید)


 

قرآن كریم نے بعد میں آنے والے انبیاء (اور بدرجہ اولی خاتم انبیاء) پر سابق انبیاء كی جانب سے ایمان لانے ان كی نبوت كو تسلیم كرنے بلكہ ان كی آمد كو خوشخبری دینے كا اور ذمہ داری كا كہ وہ اپنی امت كو بھی ایسا كرنے كی ہدایت كریں اور انہیں بعد میں آنے والے انبیاء كی تعلیمات كو قبول كرنے كے لئے تیار كریں اور اسی طرح بعد میں آنے والے پیغمبروں كی جانب سے پیشرو پیغمبروں كی تائید و تصدیق كا اور اللہ تعالیٰ كا اپنے پیغمبروں سے اس خوشخبری اس تسلیم تائید تصدیق پر پختہ عہد لینے كا اس طرح ذكر كیا ہے:

"و اذ اخذ اللہ میثاق النبین لما اتییكم من كتاب و حكمۃ ثم جاء كم رسول مصدق لما معكم لتومنن بہ و لتنصرنہ قال اقررتم و اخذتم علی ذلكم اصی قالوآ اقررنا قال فاشہدوا وانا معكم من الشہدین" 8

ترجمہ:"یاد كرو اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا كہ"آج میں نے تمہیں كتاب اور حكمت و دانش سے نوازا ہے ۔كل اگر كوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اس تعلیم كی تصدیق كرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے تو تم كو اس پر ایمان لانا ہوگا اس كی مدد كرنی ہوگی"یہ ارشاد فرما كہ اللہ نے پوچھا"كیا تم اس كا اقرار كرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد كی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو۔"انہوں نے كہا"ہاں ہم اقرار كرتے ہیں"اللہ نے فرمایا "اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گاوہ ہوں ۔"

نيوتوں كا ایك رشتہ میں بندھا ہونا اور ایك نبوت كا دوسری سے مربوط ہوتے چلے جانا یہ ظاہر كرتا ہے كہ نبوت تكمیل كی جانب ایك تدریجی سفر ہے جس كا آخر حلقہ اس كی سب سے اونچی چوٹی ہے ۔عارفین اسلام كہتے ہیں:

"الخاتم من ختم المراتب باسرھا"

عنی پیغمبر خاتم وہ ہے جس نے تمام مراحل طے كرلیے ہیںاور وحی كی رو سے كوئی ایسی راہ باقی نہیں رہ گئی ہے جسے اس نے طے نہ كیا ہو اور كوئی ایسا نكتہ باقی نہیں رہ گیا ہے جس كی اس نے وضاحت نہ كی ہو۔اگر ہم یہ فرضكر لیں كہ كسی علم سے متعلق تمام مسائل حل ہوچكے ہیں تو پھر اس شعبہ میں كسی نئی تحقیق یا كسی نئے انكشاف كی گنجائش باقی نہیں رہتی۔وحی سے متعلق مسائل كا معاملہ بالكل ایسا ہی ہے ۔خدا كے آخری دستور كے آجانے كے بعد كسی نئے انكشاف اور كسی نے پیغمبر كی ضرورت باقی نہیں رہتی۔محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كے ذریعہ جو كچھ انسنا پر منكشف ہوا ہے، اسے ایك ایسے كامل ترین مكاشفہ كی حیثیت حاصل ہے جو كسی انسنا كے دائرہ امكان میں ہو سكتا ہے یہ بات واضح ہے كہ ایك ایسے مكمل مكاشفہ كے بعد دوسرا جو بھی مكاشفہ ہو گا، وہ دار اصل پہلے سے طے كردہ راہ كی ہی ایك چیز ہو گی اس كے ساتھ كوئی نئی بات نہیں ہوغی، آخری بات تو وہی ہے جو اس كامل ترین مكاشفہ میں آچكی ہے:

"و تمت كلمت ربك صدقاً و عدلاً لامبدل لكلمٰتہ و ہو السمیع العلیم" 9

ترجمہ:"تمہارے رك كی بات سچائی اور انصاف كے اعتبار سے كامل ہے كوئی اس كے فرامین كو تبدیل كرنے والا نہیں ہے اور وہ سب كچھ سنتا اور جانتا ہے ۔"

مرحوم فیض نے اپنی كتنا علم الیقین كے 10 پر كسی بزرگ كا قول نقل كیا ہے:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 next