شاهكار رسالت

مطہرى، مرتضيٰ (آیۃ اللہ شهید)


"انسانی فطرت كا ہدف و مقصود و قرب الٰہی كے مقام تك پہنچنا ہے اور پیغمبروں كی رہنمائی كے بغیر ممكن نہیںہے ۔اس اعتبار سے نبوت نظام زندگی كا ایك حصہ قرار پاتی ہے لیكن اس كا مقصود اور ہدف سب سے اونچا مرتبہ اور نبوت كا آخری درجہ ہے نہ كہ نبوت كا اولین درجہ، سنت الٰہی كے مطابق نبوت بتدریج درجہ كمال تك پہنچتی ہے جیسے كہ ایك عمارت بتدریج مكمل ہوتی ہے ۔عمارت كی تعمیر كا ہدف اس كے پایے اور دیواریں نہیں ایك مكمل مكان ہوتا ہے، نبوت كا معاملہ بھی ایسا ہی ہے نبوت كا ہدف اس كی تكامل صورت ہے یہی وجہ ہے كہ نبوت كا سلسلہ ایك جگہ پہنچ كر ختم ہو جاتا ہے اور مكلم ہو جاتا ہے ۔

وہ مزید كسی اضافے كو قبول نہیں كرتا كیونكہ تكمیل كے بعد كوئی اضافہ و كمال كے منافی ہو تا ہے اور اس كی حیثیت ایك زائد انگلی كی سی ہو جاتی ہے، پیغمبر اكرم (ص) كی معروف حدیث میں اس جانب اشارہ كیا گیا ہے، آپ نے فرمیا نبوت ایك مكان كی مانند ہے جو تیار ہو چكا ہے لیكن اس كے مكمل ہو ے میں سرف ایك اینٹ كی جگہ باقی رہ گئی ہے اس جگہ كو میں ہی بھرنے والا ہوں یا میں ہی اس آخری اینٹ كی جگہ باقی رہ گئی ہے اس جگہ كو میں ہی بھرنے والا ہوں یا میں ہی اس آخری اینٹ كا نصب كرنے والا ہوں!

ہم نے گذشتہ صفحات میں جو كچھ لكھا ہے، وہ عقیدہ ختم نبوت كے پس منظراور اس كی بنیادون كی جانب رہنمائی كے لیے كافی ہے ۔

یہ بات واضح ہوگئی كہ انسانی فطرت میں دین كی طلب وہ بنیاد ہے جس پر عقیدۀختم نبوت استوار ہوتا ہے تمام انسانوں كی فطرت ایك ہے، تكمیل انسانیت كا سفر ایك با مقصد سفر ہے جو ایك متعین اور سیدھے راستہ جاری ہے ۔اس اعتبار سے دین حق، جو فطرت كے تقاضوں كی وضاحت كرتا ہے اور انسان كی راہ راست كی جانب رہنمائی كرتا ہے، صرف ایك ہی ہوسكتا ہے ۔ایك طریق زندگی جو انسانی فطرت كے مطابق ہو، جامع اور كلی ہو اور ہر طرح كی تبدیلی و تحریف سے محفوظ ہو اور جو مسائل كی اچھی طرح تشخیص كر سكے اور جسے اچھی طرح منطبق كیا جاسكے اور عمل و نفاذ كے مرحلے میں ہمیشہ رہنمائی كرسكے اور حالات كے مطابق مختلف طریقوں لائحہ عمل اور بے شمار جزئی قوانین كے لئے سرچشمہ ثابت ہوسكے انسانی فطرت كا ایك اہم تقاضا اور انسان كی ایك بنیادی ضرورت ہے آئدہ مضامین اس پہلو كو بہتر طریقے پر واضح كریں گے ۔

اب ہم ان سوالات كا جواب تلاش كرتے ہیں جن كی طرف ابتدا میں اشارہ كیا گیا تھا ۔

آسمانی دروازے

پہلا سوال جس كے سبب ختم نبوت كا عقیدہ وجود میں آیا وہ عالم غیب اور انسان كے درمیان رابطے سے تعلق ركھتا ہے وہ سوال یہ ہے كہ سب سے پہلے دور كے انسان نے اپنی جہالت اور بے علمی كے باوجود وحی و الہٰام كے راستے سے عالم غیب كے ساتھ كس طرح رابطہ پیدا كرلیا اور اس پر آسمان كے دروازے كیسے كھل گئے؟ جبكہ ترقی یافتہ بعد كا انسان اس رحمت سے محروم رہا اور اس پر آسمان كے دروازے بند ہوگئے ۔

كیا فی الواقع انسان كی روحانی اور باطنی صلاحیتیں كم ہوگئی ہیں اور وہ اس اعتبار سے تنزل میں چلا گیا ہے ۔

یہ شبہ اس خیال سے پیدا ہوا ہے كہ عالم غیب كے ساتھ معنوی ربط و تعلق انبیاء كے ساتھ مخصوص ہے اس لئے سلسلہ نبوت كے منقطع ہونے كا لازمی نتیجہ عالم غیب اور عالم انسانی كے درمیان روحانی اور معنوی رابطے كے انقطاع كی صورت میں ظاہر ہوگا ۔

لیكن یہ خیال اپنی كوئی بنیاد نہیں ركھتا ۔قرآن كریم بھی غیب اور ملكوت كے ساتھ اتصال كے درمیان اور مقام نبوت كے درمیان لازم و ملزوم كے تعلق كا قائل نہیں ہے جیسا كہ خرق عادت كو وہ پیغمبری كی واحد دلیل تسلیم نہیں كرتا، قرآن كریم ایسے اشخاص كا بھی ذكر كرتا ہے كہ ان كی معنوی زندگی ایسی طاقت سے بہرہ مند رہی ہے كہ انہوں نے فرشتوں كے ساتھ ہمكلامی كی ہے اور ان سے خارق العادت (غیر معمولی) امور انجام پائے ہیں حالانكہ وہ اشخاص نبی نہیں تھے ۔اس كی بہترین مثال عمران كی بیٹی، عیسی مسیح (ع) كی ماں مریم ہے ۔قرآن نے ان كے بارے میں حیرت انگیز واقعات كا ذكر كیا ہے ۔قرآن موسیٰ (ع) كی والدہ كے بارے میں بھی كہتا ہے ہم نے اس كی طرف وحی بھیجی كہ موسیٰ (ع) كو دودہ پلائے اور جب اسے موسیٰ (ع) كے بارے میں كسی خوف كا احساس ہوا تو اسے دریا میں بہادے ہم اسے محفوظ ركھ كر تیری طرف واپس لوٹا دیں گے ہمیں معلوم ہے كہ عیسیٰ (ع) كی ماں پیغمبر تھیں اور نہ موسیٰ (ع) كی والدہ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 next