شاهكار رسالت

مطہرى، مرتضيٰ (آیۃ اللہ شهید)


اس سلسلے میں پہلے بہت كچھ كہا جا چكا ہے اس كا نقل مرنا موجب ظوالت ہوگا ۔ہمارے زمانے كے دانشمندوں میں سے عالمہ اقبال نے ایك بڑی لطیف بات كہی ہے ۔اقبال نے نبی اور عارف كے درمیان (ان كے قول كے مطابق مرد باطنی) فرق كو اس طرح واضح كیا ہے ۔

ایك مرد عارف تجرنہ اتحادی (وصول بہ حق) سے حاصل كرنے والے اطمینان و سكون كے بعد حیات دنیوی كی جانب واپسی كو پسند نہیں كرتا ۔اگر وہ ضرورت كی بنا پر واپس بھی آتا ہے تو انسانیت كے لئے اس كی واپسی چنداں سودمند نہیں ہوتی لیكن خلق كی طرف پیغمبر كی واپسی ثمر بخش اور تخلیقی پہلو كی حامل ہوتی ہے ۔پیغمبر واپس آتا ہے اور وقت كے دھارے میں اتر جاتا ہے تاكہ تاریخ كے دھارے كو قابو میں لائے اور اس طرح كمال مقاصد سے ایك جہاں تازہ پیدا كرے ۔ایك مرد عارف كے لیے تجربہ اتحادی (وصول بہ حق) سے حاصل ہونے والا سكون ایك انتہائی مرحلہ ہے اور پیغمبر كے لئے اس كی روحانی قوت كا بیدار ہونا ہے جو ساری دنیا كو ہلا كر ركھ دیتی ہے ۔یہ قوت ایك ایسے اندازے كے ساتھ ظاہر ہوتی ہے كہ عالم انسانی میں ایك مكمل انقلاب برپا كردیتی ہے پیغمبری كو ایك ایسی باطنی خود آگاہی ركھنے والی نوع سے تعبیر كیا جاسكتا ہے كی اس میں تجربہ اتحادی (وصول بہ حق) اپنی حدود سے باہر نكلنے كے قریب پہنچ جاتا ہے اور ایسے مواقع كی تلاش میں ہوتا ہے كہ اجتماعی زندگی كی طاقتوں كو از سر نو توجیہ كرے یا انہیں ایك تازہ شكل دے!

پس انقطاع نبوت سے مراد ارشاد و ہدایتر كے لیے خدا كی طرف سے ماموریت كا منقطع ہونا ہے ۔خدا كی طرف سفر كرنے والوں اور سالكوں كے لیے معنوی فیض كا منقطع ہونا نہیں ۔

اگر ہم نے یہ گمان كیا كہ اسلام نے نبوت كے اعلان كے ساتھ معنوی زندگی كی بھی نفی كردی ہے تو ہم سخت غلطی كریں گے ۔

نبوت تبلیغی

دوسرا سوال یہ ہے كہ پیغمبران كرام بحثییت مجموعی دو بڑی ذمہ داریوں كو پورا كرتے رہے ہیں ۔وہ خدا كی طرف سے انسان كے لیے قانون اور دستور العمل لاتے رہے ہیں وہ دوسرے یہ كہ وہ لوگوں كو خدا كی طرف بلانے كے ساتھ انہیں اس دور اور زمانے كے الٰہی دستور العمل پر كاربند ہونے كی دعوت دیتے رہے ہیں ۔پیغمبروں كی اكثریت اسی دوسرے فریضے كے انجام دینے پر مامور رہی ہے ۔ایسے پیغمبروں كی تعداد بہت كم ہے جن كو قرآن اولوالعزم قرار دیتا ہے اور جن كے ذریعے قانون اور دستور العمل بھیجا گیا ہے ۔اس اعتبار سے نبوتیں دو قسم كی رہی ہیں ایك نبوت تشریعی اور دوسری نبوت تبلیغی …تشریعی پیغبر جن كی تعداد بہت تھوڑی ہے وہ صاحب شریعت و قانون انبیاء كہلاتے ہیں جبكہ تبلیغی پیغمبروں كا كام صاحب شریعت پیغمبروں كی تعلیمات كو عام كرنا اور ان ہی كے مطابق تعلیم و ارشاد كا كام انجام دینا رہا ہے ۔اسلام نے ختم نبوت كا اعلان كركے نہ صرف تشریعی نبوت بلكہ تبلیغی نبوت كے سلسلے كوبھی ختم كردیا ہے ۔آخر ایسا كیوں كیا گیا؟ امت محمد (ص) اور ملت اسلامیہكو پیغمبروں كے ہدایت و ارشاد كے اس سلسلے سے كیوں محروم كیا گیا؟

بلفرض ہم نے یہ بات تسلیم كرلی كہ تكمیل اتمام اور جامعیت و كلیت كی بنا پر تسریعی نبوت كا سلسلہ منقطع كردیا گیا لیكن تبلیغی نبوت كے سلسلے كو كس حكمت و فلسفے كی بنا پر ختم كیا گیا؟

حقیقت یہ ہے كہ نبوت اور ہدایت وحی كی اصل ذمہ داری یعنی وہی پہلی ذمہ داری (تشریعی) ہے جبكہ تبلیغ تعلیم اور دعوت كی ذمہ داری (تبلیغی) نصف بشری ہے تو نصف الٰہی۔

وحی اور نبوت یعنی عالم وجود كی بنیادوں سے ایك پوشیدہ اتصال اور رابطہ اور مخلوق كی ہدایت كے لیے اس كی ماموریت در اصل مظاہر ہدایت كا ایك مظہر ہے جو سارے عالم وجود پر حكم فرما ہے ۔

"الذی خلق فسویٰ والذی قدر فہدیٰ" 14

ترجمہ:"جس نے پیدا كیا اور تناسب قائم كیا جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دكھائی۔"



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 next