شاهكار رسالت

مطہرى، مرتضيٰ (آیۃ اللہ شهید)


موجودات زندگی كی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے اس درجہ كمال كی مناسبت سے جس پر وہ پہنچ جاتے ہیں ہدایت خاص سے پہرہ مند ہوتے ہیں یعنی ہدایت كی شكل اور خصوصیت زندگی كے مختلف مراحل كے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے ۔تمام دانشور اس بات كو تسلیم كرتے ہیں كہ حیوانات اپنی ساخت كے وسائل طبیعی كے اعتبار سے ضعیف تر اور ناتوان تر ہیں لیكن وہ پوشیدہ جبلی رہنمائی كے اعتبار سے قوی تر ہوتے ہیں انہیں فطرت كی ایك مستقل سر پرستی اور حمایت حاصل رہتی ہے ۔وہ جس قدر طبعی وسائل اور عقلی وہمی خیالی اور حسی طاقتوں سے لیس ہوتے چلے جاتے ہیں وجود كی سیڑھی پر ان كے قدم بلندی كی جانب اٹھتے چلے جاتے ہیں ۔ان كی جبلی ہدایت میں كمی آنے لگتی ہے ۔ٹھیك اس بچہ كی طرح جو كمسنی كے ابتدائی مراحل میں ماں باپ اور دوسرے اشخاص كی مستقل سر پرستی اور نگرانی سے بہرہور رہتا ہے اور جس قدر وہ رشد و بلوغ حاصل كرتا جاتا ہے والدین كی مستقل نگرانی و سرپرستی كے دائرے سے باہر نكتا چلا جاتا ہے ۔

جاندار مخلوقات كا زندگی كی سیڑھیوں پر چڑھ كر بلند ہونا اور ان كا عقلی وہمی خیالی حسی اور عضوی وسائل سے لیس ہونا ان كے استحكام و استقلال كو بڑھانا ہے اور اس اعتبار سے ان كی جبلی ہدایت كم ہوجاتی ہے ۔

كہا جاتا ہے كیڑے دوسرے تمام حیوانات كی بہ نسبت جبلی ہدایت سے زیادہ لیس ہوتے ہیں اس كی وجہ یہ ہے كہ وہ تكمیلی مراحل كے اعتبار سے سب سے نچلے درجہ میں ہیں اور انسان جو تكمیل كی سیڑھی كے سب سے اونچے پلہ پر پہنچا ہوا ہے تمام مخلوقات كی بہ نسبت جبلی ہدایت میں كمزور تر ہے ۔

وحی ہدایت كے عالی ترین اور بلند ترین مراتب و مظہر میں سے ایك ہے ۔وہ اپنے اندر ایك ایسی رہنمائی ركھتی ہے جو حس خیال عقل علم اور فلسفہ كی دسترس سے باہر ہے ان میں سے كوئی چیز وحی كی جگہ نہیں لے سكتی لیكن وحی تشریعی ہی اس خصوصیت كی حامل ہے وحی تبلیغی نہیں وحی تبلیغی كا معاملہ دوسرا ہے ۔

انسان اس وقت تك تبلیغی وحی كا محتاج رہتا ہے جب تك اس كی عقل علم اور تمدن كا فرجہ اس مقام تك بلند نہیں ہو جاتا كہ وہ خود اپنے دین كے بارے میں دعوت تعلیم تبلیغ تفسیر اور اجتہاد كا فرض انجام دے سكے علم اور عقل كا ظہور دوسرے الفاظ میں انسانیت كا رشد و بلوغ خود وحی تبلیغی كو ختم كر دیتا ہے اور علماء ان انبیاء كے جانشین قرار پاتے ہیں ۔

جیسا كہ ہمیں معلوم ہے قرآن نے اپنی نازل ہونے والی پہلی آیت میں پڑھنے لكھنے كی اور قلم وعلم كی بات كی ہے ۔

اقرا باسم ربك الذی خلق؛ خلق الانسان من علق؛ اقراء و ربك الاكرم؛ الذی علم بالقلم؛ علم الانسان مالم یعلم" 15

ترجمہ: "پڑھو (اپنے نبی) اپنے رب كے نام كے ساتھ جس نے پیدا كیا جمے ہوئے خون كے ایك لو تھڑے سے انسان كی تخلیق كی پڑھو اور تمہارا رب بڑا كریم ہے جس نے قلم كے ذریعہ سے علم سكھایا ۔انسان كو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا ۔"

یہ آیت اس بات كا اعلان كرتی ہے كہ قرآن كا عہد پڑھنے لكھنے سكھانے كا اور علم و عقل كا عہد ہے ۔یہ آیت ہمیں اشار تا بتاتی ہے كہ قرآن كے اس دور میں تعلیم تبلیغ اور آسمانی آیات كی حفاظت كی ذمہ داری علماء كی طرف منتقل كردی گئی ہے اور علماء اس اعتبار سے انبیاء كے جانشین قرار پاتے ہیں ۔اس آیت نے اس عہد میں بشریت كے استقلال اور بلوغ كا اعلان كیا ہے ۔ قرآن نے اپنی تمام آیات میں تدبر عقلی استدلال فطرت كے تجرباتی و عینی مشاہدہ تاریخ كے مطالعہ اور گہرے غور و فكر كی دعوت دیتا ہے یہ سب ختم نبوت كی اور وحی تبلیغی كی جگہ علم و عقل كے جانشین ہونے كی نشانیاں ہیں ۔

قرآن كے لیے جس قدر كام ہوچكا ہے كیا كسی دوسری آسمانی كتاب كے لیے اس قدر كام انجام دیا گیا ہے؟ نزول قرآن كے ساتھ ہی قرآن كے ہزاروں حافظ پیدا ہوگئے ۔نزول قرآن كو ابھی نصف صدی بھی نہیں گزری تھی كہ علوم قرآنی كی خاطر نحو وصرف قواعد زبان اور عربی زبان كی لغات كی تیاری كا كام شروع ہوچكا تھا ۔معانی بیان اور بدایع كا علم ایجاد ہوا ہزاروں تفسیریں اور ان كے مفسرین تفسیر قرآن كی درسگاہیں وجود میں آگئیں ۔قرآن كے لفظ لفظ كے بارے میں تحقیق كا كام ہونے لگا اس كام زیادہ حصہ ان لوگوں كے ہاتھوں انجام پاتا رہا جن كی مادری زبان عربی نہیں ہے ۔ صرف یہ قرآن سے متعلق خاطر ہی رہی ہے جس نے اس قدر جوش و جذبہ پیدا كردیا ۔یہ ساری سرگرمیاں آخر توریت انجیل اور اوستا كے لیے كیوں ظاہر نہیں ہوئیں كیا خود یہ بات بشریت كے رشد و بلوغ اور كتاب آسمانی كی تبلیغ و حفاظت اس كی صلاحیت پر دلالت نہیں كرتی؟ كیا یہ اس بات كی دلیل نہیںہے كہ عقل و دانش نبوت تبلیغی كی جانشین بن گئی ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 next