شاهكار رسالت

مطہرى، مرتضيٰ (آیۃ اللہ شهید)


انسان اپنے ابتدائی دور میں مكتب كے اس كمسن بچے كی طرح تھا جو چند روز بعد ہی اپنی كتاب كو پھاڑ كرپھینك دیتا ہے اس كے بر عكس عہد اسلامی كا انسان ایك بزرگ عالم كی طرح ہے كہ وہ جس قدر اپنی كتابوں كا بار بار مطالعہ كرتا ہے اسی قدر ان كے مضمین اسے یاد ہوتے چلے جاتے ہیں اور وہ ان كی گہرائی میں اتر تا چلا جاتا ہے ۔

انسانی زندگی كو بالعموم عہد تاریخ اور تاریخ سے پہلے كے عہد كے دو ادوار میں تقسیم كیا جاتا ہے ۔تاریخ كا عہد اس دور كو كہا جاتا ہے جس میں انسان اپنی یادداشتوں كو كتبوں اور كتابوں كی صورت میں محفوظ كرنے كے قابل ہوگیا تھا اس دور كی زندگی كے بارے میں ان ہی یادداشتوں كو فیصلہ كن قرار دیا جاتا ہے لیكن ما قبل تاریخ كے عہد كے ایسے كوئی آثار موجود نہیں ہیں جو اس زمانے كی زندگی كے بارے میں فیصلے كی بنیاد بن سكیں ۔

لیكن ہمیں یہ بھی معلوم ہے كہ عہد تاریخ كے آثار بھی زیادہ تر پراگندہ اور منتشر ہیں، البتہ اس عہد كا وہ آخری حصہ ظہور اسلام كے دور سے پوری طرح متصل ہے جس میں انسان نے پانی تاریخ اور آثار كو منظم طریقے پر نسل بہ نسل منتقل كرنا شروع كردیا تھا خود اسلام كو اس رشد عقلی كا ایك بڑا عامل سمجھا جاتا ہے ۔عہد اسلامی میں مسلمانوں نے خود اپنے آثار كی حفاظت و نگہداشت كا كام شروع كردیا تھا ۔اس كے ساتھ مسلمانوں نے پچھلی قوموں كے آثار كی بھی كم و بیش حفاظت كی اور انہیں بعد كی نسلوں كی طرف منتقل كرتے رہے ۔یہ ختم نبوت كا قریبی زمانہ ہی ہے كہ جس میں انسان نے اپنے علمی اور دینی ورثوں كی كی حفاظت كی صلاحیت كا مظاہرہ كیا ۔امر واقع یہ ہے كہ حقیقی عہد تاریخ ظہور اسلام كے عہد سے بالكل متصل ہے، گذشتہ ادوار میں ایك طرف نفیس علمی، فلسفی، اور دینی آثار ہوا اور دوسری طرف یہ آثار آب و آتش كے نذر بھی ہوتے رہے، تاریخ میں اس كی دردناك تفصیلات پوری طرح محفوظ ہیں ۔

اسكندریہ كا عظیم مشرق روم كی شہنشاہیت پر مسیحیت كے اثر و رسوخ كے بعد تباہ ہو گیا اور اس مركز تاریخی كتب خانہ متعصب عیسائیوں كے ہاتھوں نزر آتش ہو گیا!

علم كے ظہور اور ترقی كے ایك ایسے درجے تك انسان كی رسائی نے كہ وہ دین آسمانی كا محافظ، داعی اور مبلغ بن سكے، نبوت تبلیغی كی ضرورت باقی رہنے نہ دی اور اس كا سلسلہ منقطع ہوگیا ۔یہی وجہ ہے كہ پیغمبر اكرم (ص) نے اس امت كے علماء كو انبیاء بنی اسرائیل كی مانند كہا ہے ۔

علامہ اقبال نے ایك بڑی عمدہ بات كہی ہے ۔

"پیغمبر اسلام دنیائے قدیم جدید كے درمیان كھڑے ہیں ۔الہام كے سرچشمے سے جب آپ كا رشتہ جوڑا جاتا ہے تو دنیائے قدیم سے آپ كا تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور جب روح الہام كو بروئے كار لایا جاتا ہے تو دنیائے جدید سے آپ كا ربط ہو جاتا ہے ۔زندگی نے آپ كی ذات میں معرفت كے وہ دوسرے سرچشمے دریافت كر لئے ہیں جو اس (زندگی) كے نئے سفر كے لیے موزون ہیں ۔اسلام كا ظہور در اصل استدلالی اور استقرائی عقل كا وجود میں آنا ہے ۔ظہور اسلام كے ساتھ رسالت، خود نبوت كے اختتام پذیر ہونے كی ضرورت كے نتیجے میں، حد كمال كو پہنچ جاتی ہے جس سے لازما یہ دانش مندانہ نتیجہ نكلتا ہے كہ زندگی ہمیشہ، كمسنی كے مرحلے میں اور باہر سے رہنمائی كی محتاج نہیں رہ سكتی۔اسلام میں كاہنی (فالگیر) اور موروثی سلطنت كی نفی اور قرآن میں عقل اور تجربہ پر دائمی توجہ اور اس كتاب مبین كا فطرت اور تاریخ كو معرفت بشری كے سرچشموں كی حیچیت دنیا در اصل ختم نبوت كے واحد عقیدے كے مختلف خدوخال ہیں ۔عقیدۀ ختم نبوت كے یہ معنے نہیں لینے چاہیں كہ زندگی كی انتہائی سرنوشت یہ ہے كہ عقل كامل جزبات و احساسات كی جگہ حاصل كرلے، یہ بات نہ ممكن ہے اور نہ مطلوب"

اسلام نے اعلان ختم نبوت كے ضمن میں اپنی ابدیت كا اعلان كیا ہے:"حلال محمّدٍ حلال الی یوم القیامہ و حرام محمد حرام الی یوم القیامۃ"

ترجمہ: "محمد كا حلال كیا ہوا قیامت تك حلال ہے اور محمد (ص) كا حرام كیا ہوا قیامت تك حرام ہے"

سوالات اور اعتراضات كی ساری بوچھاڑ اسی موضوع سے ہے كہا جاتا ہے كیا كسی چیز كے لیے ہمیشگی ممكن ہے؟



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 next