شاهكار رسالت

مطہرى، مرتضيٰ (آیۃ اللہ شهید)


اس كے علاوہ یہ بھی كہا جاتا ہے كہ انسان خدا كی رہنمائی اور اس كا پیغام كا محتاج ہے ۔اس كی یہ ضرورت ہی سلسلہ نبوت كے آغاز كا سبب بنی۔ماضی میں مختلف زمانوں اور ادوار كے تقاضوں كے مطابق پیغام الہی كی تجدید ہوتی رہی ہے ۔پیغمبروں كا پے درپے آنا شریعتوں كی مسلسل تجدید اور كتب آسمانی كا یكی بعد دیگری نزول اس لئے ہوا كہ ہر دور میں انسان كی ضروریات میں تغیر آتا رہا ہے اور انسان كو ہر زمانے میں ایك نئے پیغمبر كی ضرورت رہی ہے ۔جب یہ صورت ہے تو كس طرح یہ بات فرض كی جاسكتی ہے كہ ختم نبوت كے اعلان كے ساتھ ہی یہ رابط یك دم منقطع ہوگیا اور وہ پل كہ جس نے عالم انسانیت كو عالم غیب كے ساتھ جوڑ ركھا تھا وہ یك بیك ڈھ گیا ہے ۔اس كے بعد اب كوئی الہی پیغام انسانیت كی طرف نہیں بھیجا جائے گا تو كیا انسانیت كو فرائض اور ذمہ داریوں كے بغیر یو نہی آزاد چھوڑدیا جائے گا ۔ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں كہنوح (ع)، ابراہیم (ع)، موسی (ع) اور عیسی (ع) جیسے صاحب شریعت پیغمبروںكے درمینی زمانوں میں كچھہ دوسرے پیغمبروں كا سلسلہ بھی موجود رہا ہے "اس سلسلے سے تعلق ركھنے والے پیغمبر اپنے سے پہلے كی شریعت كو نافذ كرنے اور پھیلانے كا كام انجام دیتے رہے ہیں ۔نوح علیہ السالم كے بعد ہزاروں انبیا آئے ۔ان انبیاء نے نوح علیہ السلام كی شریعت كو نافذ كیا اور پھلایا ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام كے بعد بھی ایسا ہی ہوا ۔بالفرض یہ تسلیم كرلیا جائے كہ شریعت اسلام كی آمد كے ساتھ ہی شریعت لانے والی نبوت اور شریعتوں كا سلسلہ ختم ہوگیا ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے كہ اسلام كے بعد تبلیغی نبوتوں كا سلسلہ كیوں منقطع ہوگیا "جبكہ ماضی میں ہر شریعت كے نازل ہونے كے بعد بےشمار پیغمبر ظاہر ہوتے رہے اور ظہر ہوتے رہے اور سابق شریعت كی تبلیغ، ترویج اور نگہبانی كا فرض ادا كرتے رہے لیكن اسلام كی درآمد كے بعد اس طرح كا ایك پیغمبر بھی ظاہر نہ ہوا؟

یہ ہیں وہ سوالات جو عقیدہ ختم نبوت كے بارے میں پیدا ہوتے ہیں ۔ختم نبوت كا عقیدہ اسلام نے پیش كیا ہے اور وہی اس كا جواب بھی دیتا ہے ۔

اسلام نے ختم نبوت كے عقیدہ كو ایك ایسے جامع فلسفہ كی صورت میں پیش كیا ہے كہ ذہنوں میں كوئی شك و ابہام باقی نہیں رہتا ۔

اسلام كی رو سے ختم نبوت كا عقیدہ نہ انسانیت كے تنزل كی علامت ہے اور نہ انسانی صلاحیت كے نقصان كی نہ مادر زمانہ كے بانجھ ہوجانے كی، اور نہ عقیدہ اس بات كی دلیل ہے كہ انسانیت اب پیغام الہی سے بے نیاز ہوچكی ہے اور انسان كو مختلف ناسازگار زمانوں كے تقاضوں كے مطابق كسی رہنمائی كی ضرورت نہیں ہے ۔ اسلام اس بارے میں ایك دوسرا ہی فلسفہ اور توجیہ پیش كرتا ہے ۔

سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا چاپیئے كہ اسلام نے خود ختم نبوت كے بارے میں كیا كہا ہے، اس كے بعد ان سوالات كا جواب تلاش كرنا چاہیئے ۔سورہ احزاب كی آیت ۴۰ میں ہم پڑہتے ہیں

"ما كان محمد ابا احد من رجالكم و لكن رسول اللہ و خاتم النبیین" "محمد تم مردون میں سے كسی كا باپ نہیں ہے لیكن وہ اللہ كا رسول (ص) اور انبیا كے سلسلے كو ختم كرنے والا ہے"

اس آیت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم كا خاتم النبیین كے نام سے یاد كیا گیا ہے ۔ختم كا لفظ عرنبی لغت كے اعتبار سے ایك بایسی چیز كے لئے بولتا جاتا ہے جو كسی دوسری چیز كے سلسے كو ختم كرنے كے لئے استعمال كی جاتی ہے ۔اس لئے اس مہر كو خاتم كہتے ہیں جو خط بند كرنے كے بعد لفافے پر لگائی جاتی ہے ۔روج كے مطابق انگشتری كے نگینینے پر نام یا دستخط كندہ ہوتے ہیں اور وہی خطوط پر ثبت كئے جاتے ہیں "اسی لئے انگشتری كو خاتم كہاجاتاہے ۔قرآن میں جہاں كہیں اور جس صورت میں بھی "ختم "كا مادہ استعمال كیا گیا ہے ختم كرنے یا بند كرنے كے معنوں میں استعمال كیا گیا ہے جیسا كہ سورہ یسین كی آیت ۶۵ میں آیا ہے :"الیوم نختم علی افواھھم و تكلمنا ایدیھم و تشھد ارجلھم بما كانو یكسبون"

"آج ہم ان كے منہ پر مہر لگاتے ہیں اور ان كے ہاتھ ہم سے بات كرتے ہیں اور ان كے پیر جو كچھ انہوں نے كیا ہے اس پر گوہی دیتے ہیں ۔"

زیر بحث آیت كا انداز خود یہ بتاتا ہے كہ اس آیت كے نزول سے پہلے پیغمبر اسلام پر سلسلہ نبوت كا ختم ہونا كا ختم ہونا مسلمانوں كےدرمیان ایك مسلمہ امر كی حیثیت ركھتا تھا ۔مسلمان جس طرح محمد (ص) كو خدا كا رسول (ص) سمجھتے تھے اسی طرح ان كے خاتم النبیین ہونے پر بھی یقین ركھتے تھے ۔آیت صرف یہ یاد دلاتی ہے كہ محمد (ص) كو كسی كے باپ كی حیثیت سے نہ پكارو بلكہ حقیقی خطاب رسول اللہ اور خاتم النبیین سے آپ (ص) كو مخاطب كرو۔

یہ آیت عقیدۀ ختم نبوت كے اصل جوہر كی جانب اشارہ كرتی ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 next