شاهكار رسالت

مطہرى، مرتضيٰ (آیۃ اللہ شهید)


بے شك اہم ترین مسئلہ ہے، ہماری نئی نسل بجز تغیر و تبدل اور وجدت طلبی اور زمانے كے نئے نئے تقاضوں كے كچھ نہیں سوچتی، نئی نسل كا سامنا كرتے بھی جو بات سب سے پہلے كانون تك پہنچتی ہے وہ یہی ہے، اس نسل كی انتہا پسندوں كے نقطہ نظر سے مذہب اور نو طلبی دو متضاد وجود ہیں، نو طلبی كی خاصیت حركت اور ماضٰ سے منہ موڑنا ہے جبكہ مذہب كی خاصیت جمود سكون، ماضی سے وابستگی اور موجودہ وضع كی حفاظت كرنا ہے ۔

اسلام كو دسرے ہر مذہب سے زیادہ اس طرز فكر كے حامل گروہ سے مقابلہ كرنا پڑ رہا ہے، اسلام كا ابدیت و ہمیشگی كا دعوی اس گروہ كے لیے بڑا نا قابل برادشت ہے، اسلام زندگی كے تمام شعبون میں عمل دخل ركھتا ہے، خدا اور بندے كے درمیان تعلق سے لے كر افراد كے اجتماعی روابط، خاندانی روابط، فرد اور اجتماع كے روابط انسنا اور اس دنیا كے با ہمی روابط سب ہی سے وہ بحث كرتا ہے، اگر اسلام دوسرے مذاہب كی طرح چند رسلم عبادات اور خشك اخلاقی ضوابط تك محدود ہوتا تو پھر اس كے لیے كوئی دشواری نہ تھی لیكن وہ اس قدر مدنی، فوجداری، دیوانی، سیاسی، اجتماعی اور خاندانی قوانین و ضوابط ركھتے ہوئے كیا كر سكتا ہے؟

ہم نے اوپر جو اعتراض نقل كیا ہے اس میں جبر تاریخ ضروریات میں تغیر مقضیات زمانہ كی رعایت جیسے نكات كو اٹھا یا گیا ہے اس لیے اعتراض كے ان تین اصل نكات پر مختصراً، بحث كرنا ضروری ہے، اس كے بعد اسلام كے نقطہ نظر سے ہم اس اعتراض كو رفع كرنے كی كوشش كریں گے، ان محدود صفحات مین بحث كے تمام پہلووں كا احاطہ كرنا ممكن نہیں ہے، ایك ایسا مسئلہ جو فلسفہ، فقہ، تاریخ اور اجتماعیات سب ہی سے متعلق ہے ایك ضخیم كتاب كی وسعت چاہتا ہے جسے برسون كے مطالعہ كا حاسل قرار دیا جا سكے تا ہم توقع ہے كہ یہ مختسر مقالہ اس اشكال كے رفع كرنے میں مدد دے گا ۔

جبر تاریخ

یہ كلمہ و اجزاء سے مركب ہے ۔جبر اور تاریخ جبر كا مطلب كسی چیز كا حتمی اور یقینی ہونا ہے فلاسفہ كی اصطلاح میں اسے ضرورت اور وجوب كہا جاتا ہے مثلا :جب ہم ۵×۵ كہتے ہیں تو یہ ضرب كھانے والے دونوں اعداد ضرورتا اور جبرا ۲۵ كے مساوی ہوں گے یعنی حتما ایسا ہی ہے اس كے خلاف ہونا ممكن نہیں ہے ۔یہ بات ظاہر ہے كہ جبر كا لفظ اصطلاحا ایك فلسفیانہ مفہوم ركھتا ہے ۔اس سے ہٹ كر جبر كا مفہوم حقوقی فقہی اور عرفی ہے یعنی یہ لفظ اكراہ اور جبریہ ارمال كے لئے استعمال كیا جاتا ہے ۵×۵ اپنی ذاتی ساخت كی بناء پر ۲۵ كے مساوی ہے یہ كسی جبری قوت اور جبریہ عمل كی وجہ سے نہیں ہے لیكن تاریخ، تاریخ یعنی حادثات كا مجموعہ جو انسان كی سرگذشت كو تشكیل دیتا ہے ۔انسانی سرگذشت ایك راستہ طے كرتی ہے كچھہ ایسی طاقتیں كار فرما ہیں جو اسے حركت میں لاتی ہیں اور اسے قابو میں ركھتی ہیں جیسے ایك دستی پہیہ یا ایك كارخانہ جسے ہاتھہ یا بھاپ كی طاقت سے چلایا جاتاہے ۔تاریخ كو بھی كچھہ عوامل اور طاقتیں حركت میں ركھتی ہیں ۔اسے گردش میں لاتی ہیں اور آگے بڑھاتی ہیں ۔اس اعتبار سے جبر تاریخ، كا مطلب سرگذشت بشر كا حتمی اور پایبند ہونا ہے، جب ہم یہ كہتے ہیں كہ تاریخ كی حركت كی حركت جبری ہے تو اس كا مطلب یہ ہوتا ہے كہ انسان كی اجتماعی زندگی میں كچھہ ایسے طاقتور عوامل ہیں جو اپنے قطعی اچرات ركھتے ہیں ۔ان سے بچنا ممكن نہیں ان عوامل كی تاثیر یقینی اور حتمی ہوتی ہے ۔

جبر تاریخ، كے كلمے نے ہمارے اس دور میں بڑی قدر و قیمت حاصل كر لی ہے یہ كلمہ موجودہ زمانے میں وہی كردار ادا كررہا ہے جو اس نے ماضی میں قضا و قدر كے پردہ میں ادا كیا تھا ۔حوادث زمانہ كے آگے سپرڈال دینا اور اپنے غلطیوں كے عذر تراشنا اس كا مدعا ہے ۔

یہ ایك شیر خونخوار ہے كہ اس كے مقابل تسلیم و رضا كے سوا كوئی چارہ نہیں ۔ماضی میں اس كا نام قضا و قدر تھا اور موجودہ دور میں اسے جبر تاریخ كہا جاتا ہے ۔

حقیقت یہ ہے كہ نقضا و قدر اور جبر تاریخ دونوں كلمہ صحیح فلسفیانہ مفہوم كے ھامل ہیں ۔ان كے حقیقی مفہوم كو نہ سمجھنا ہی غلط تعبیر كا سبب بنا ہے ہم نے اپنی كتاب "انسان و سرنوشت :میں قضاء و قدر كے بارے میں بحث كی ہے لیكن جبر تاریخ، یہ كہ انسانی سرگذشت دینا كے تمام حوادث كی طرح نہ تبدیل ہونے والا قانون ركھتی ہے اور تاریخی عوامل دوسرے تمام عوامل كی طرح قطعی اور لازمی تاثیرات ركھتے ہیں، یہ كوی ایسی بات نہیں ہے ۔قرآن كریم نے خود سنۃاللہ كہہ كر اس كی تائید كی ہے لیكن ان عوامل كی تاثیر كی نوعیت اصل مسئلہ ہے ۔كیا تاریخ كے جبری عوامل كا اثر اس صورت میں ظاہر ہوتا ہے كہ ہر چیز وقتی محدود اور زوال پذیر ہو كر رہ جاتی ہے یا اس كی كوئی دوسری صورت بھی ہے؟

ظاہر ہے اس مسئلہ كا تعلق عوامل كی نوعیت سے ہے ۔اگر تاریخ كو گردش میں لانے والے عوامل مضبوط اور پائیدار ہوں گے تو ان كی جبری تاثیر كا نتیجہ اس شكل میں ظاہر ہوگا كہ وہ گردش و تسلسل كو برقرار ركھیں گے ۔اگر اس كے بر عكس یہ عوامل ناپا۴دار عامل كا تعلق خاندان كی تشكیل رفیق زندگی كے انتخاب اور بچوں كی تولید میں موثر رہا ہے ۔تاریخ كے طویل دور میں خاندانی زندگی كے خلاف تحریكیں اٹھتی رہیں لیكن وہ سب ناكام ہوگئیں ۔ایسا كوں ہوا؟ یہ تحریكیں جبر تاریك كے خلاف تھیں، جبر تاریخ كا تقاضا یہ تھا كہ خاندانی زندگی باقی رہے ۔

ایك دوسرا تاریخی عامل مذہب ہے ۔پرستش انسان كی سرشت میں شامل ہے یہ كسی نہ كسی صورت میں موجود رہی ہے ۔یہ عامل تاریخ كے تمام ادوار میں موثر رہا ہے اور اس نے مذہب پر سے توجہ كو ہٹنے نہیں دیا ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 next