شاهكار رسالت

مطہرى، مرتضيٰ (آیۃ اللہ شهید)


۔ معاشرت مبادلہ اشیاء، تعاون، عدالت، آزادی اور مساوات كا تعل قاجتماعی ضروریات سے ہے

 

ثانوی ضروریات وہ ضروریات ہیں جو بنیادی ضروریات سے پیدا ہوتی ہیں مختلف آلات اور وسائل زندگی كی ضروریات اسی نوع كی بنیادی ضروریات سے پیدا ہوتی ہیں جو زمانہ كے ساتھہ ساتھہ بدلتی ضرورت ہے تو خدا كے ساتھہ انسان كے رابطے یا فطرت كے ساتھہ رہتی ہیں ۔

یہ بنیادی ضروریات ہی جو انسان كو زندگی كی توسیع اور ترقی كی جانب قدم بڑھانے كے آمادہ كرتی ہیں ثانوی ضروریات زندگی كی توسیع و ترقی سے پیدا ہوتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ توسیع و ترقی كے لئے محرك ثابت ہوتی ہیں ۔

ضروریات میں تغیر اور ان كے نئے ہونے اور پرانے ہونے كا تعلق ثانوی ضروریات سے ہے بنیادی ضروریات نہ پرانی ہوتی ہیں اور نہ ختم ہوتی ہین وہ ہمیشہ زندہ اور نئی رہتی ہیں

ثانوی ضروریات كا ایك حصہ بھی ایسا ہی ہے قانون كی ضروریات ثانوی ضروریات كے اسی حصے سے تعلق ركھتی ہے ۔قانون كی ضروریات اجتماعی زندگی كی بنیادی ضرورت كا ایك لازمی لازمی نتیجہ ہے اور اسے بھی دوام اور ہمیشگی حاصل ہے ۔انسان كسی دور میں بھی قانون سے بے نیاز نہیں ہوسكتا ۔

ضروریات كی دوسرے قسم یہ بات صحیح ہے كہ تمدن كے عوامل میں توسیع نئینئی ضروریات كو سامنے لاتی ہے اور وقتا فوقتا فرعی قوامین ضوابط و معاہدات كا ایك سلسلہ وجود میں آتا رہتا ہے مثلا حمل و نقل كے مشینی وسائل كی بنا پر یہ ضروری ہوجاتا ہے كہ شہروں كے درمیان آمد ورفت كے لئے اور مختلف ممالك كے درمیان سفر اور حمل و نقل كے لئے كچھہ قوانین و ضوابط وضع كئے جائین جبكہ ماضی میں اس طرح كے قوانین اور معاہدوں كی ضرورت نہیں تھی البتہ تمدن كے عوامل میں توسیع حقوقی، تعزیری اور شہری قوانین جن كا تعلق لین دین، وكالتوں، ناجائز قبضوں، ضمانتوں، وراثت، ازدواج اور ایسے ہی دوسرے امور سے ہوتا ہے ۔اگر وہ فی الواقع عدالت اور فطری حقوق پر مبنی ہوں تو انہیں تبدیل كرنے كی كوئی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔جب یہان سان كے رابطے سے متعلق قوانین كی تبدیلی كا سوال كیسے پیدا ہوگا ۔

قانون ضروریات كی تكمیل كا شریفانہ اور عادلانہ طریقہ مقرر كرتا ہے وسائل و آلات ضرورت كی تبدیلی ان كے حصول و استفادہ اور ان كے عادلانہ تبادلے كے طریقے كو تبدیل كرنے كا سبب نہیں بنتی ۔مگر یہ فرض كرلیا جائے كہ زندگی كے اسباب وسائل اور آلات میں تبدیلی آتی ہے اور وہ ترقی و كمال كی صورت اختیار كرتے ہیں تو حق "انصاف اور اخلاق كا مفہوم بھی بدل جاتا ہے ۔دوسرے الفاظ میں ہم كو یہ فرض كرنا پڑے گا كہ حق، عدالت اور اخلاق كے مفاہیم اضافی ہیں ۔ایك چیز اگر كسی زمانے میں حق عدالت اور اخلاق كے ذیل میں آتی ہے تو دوسرے زمانے میں وہ حق، عدالت اور اخلاق كے خلاف مسجھی جاتی ہے ۔

ہمارے دور میں اس مفروضے كا بڑا چرچا ہے لیكن اس سلسلہ بیان مین اس مسئلہ پر بحث كی زیادہ گنجائش نہیں ہے یہاں ہم صرف یہ كہیں گے كہ اس مفروضے كا سبب حق، عدالت اور اخلاق كے حقیقی مفہوم سے ناواقیفیت ہے ۔حق عدالت اور اخلاق كے ذیل میں جو چیز تغیر پذیر ہے وہ ان كا نفاذ اور ان كی عملی صورت ہے نہ كہ ان كی حقیقت و ماہیت ۔اگركوئی آئیں و دستور حقوق اور فطرت كی بنیادس پر بنایا گیا ہو تو وہ ایك زندہ انقلابی قوت سے بہرہمند ہوگا وہ زندگی كی اس شكل و سورت سے بحث كرنے كی بجائے جس كا تعلق بظاہر تمدن سے ہے، زندگی كے لئے اصلی اور حقیقی خطاط كھیچے گا ۔وہ نہ صرف زندگی كے تغیرات سے ہم آہنگ ہوگا بلكہ ان كی رہنمائی كرے گا ۔نئی نئی ضروریات اور قوانین كے درمیان تضاد اس وقت پیدا ہوتا ہے جبكہ قانون حركت و عمل كی راہ متعین كرنے كے بجائے زندگی كی ظاہری شكل و صورت پر توجہ دے مثلا مخصوص آلات اور وسائل كو جن كا تعلق سارے كا سارا تہذیب و تمدن كے مراحل سے ہوتا ہے انہیں ہمیشہ ایك ہی صورت میں ركھنا چاہئے ۔

اگر قانون یہ چاہے كہ ہمیشہ تحریری كام ہاتھ ہی سے كیا جائے گھوڑے اور خچر ہی سواری كاكام لیا جائے اور روشنی كے لئے مٹی كے تیل كی قندیل ہی استعمال كی جائے اور صرف وہی كپڑا پہنا جائے جو ہاتھہ سے بنایاجاتا ہے ۔اس طرح كا قانون علم و تمدن كی توسیع اور اس سے پیدا ہونے والی احتیاجات سے جنگ كرتا ہے اور یہ لازمی بات ہے كہ جبر تاریخ، اس قانون كو بدل كر ركھ دے گا ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 next