شاهكار رسالت

مطہرى، مرتضيٰ (آیۃ اللہ شهید)


قانون جس قدر جزئی اور مادی ہوگا یعنی مخصوص مواد و رنگ اور مخصوص صورتوں كا حامل ہوگا، اس كے بقاء و دوام كے امكانات كم ہی ہوں گے ۔اس كے بر عكس قانون جس قدر كلی اور معنوی ہوگا اور اشیاء كی ظاہری صورتوں پر توجہ دینے كی بجائے اشیاء كے درمیان یا اشخاص كے مابین روابط پر توجہ دے گا اس كے بقاء و دوام كے امكانات زیادہ ہوں گے ۔

 

زمانے كے تقاضے زمانے كے تقاضے، یعنی ماحول معاشرے اور زندگی كےتقاضے، انسان عقل، ایجاد و اختیار كی قوت سے لیس ہے اور بہتر زندگی كی خواہش ركھتا ہے، اس لیے وہ اپنی اقتصادی، اجتماعی، اور معنوی ضروریات رفع كرنے كے لیے بہتر سے بہتر افكار و نظریات اور عوامل و وسائل كو كار زار حیات میں لانے كی كوشش كرتا ہے، بہتر اور كامل تر وسائل و عوامل كی زندگی میں آمد خود بخود پرانے اور ناقص تر عوامل كو اپنی جگہ خالی كر دینے پر مجبور كرتی ہے، اس طرح انسان جدید عوامل اور ان كی مخصوص ضروریات سے وابستگی پیدا كرلیتا ہے، انسان كی مادی اور معنوی احتیاجات كے ایك سلسلے سے وابسگتی اور ان احتیاجات كو رفع كرنے والے عوامل و وسائل كا دائمی تغیر اور ان وسائل كا ہمیشہ بہتر ہوتے چلے جانا اور ایك مرحلہ پر خود ان كا نئی نئی احتیاجات كے ایك سلسلے كو وجود میں لا نا ہر دور اور زمانے میں ماحول اجتماع اور زندگی كے تقاضوں میں تغیر كا سبب بنتا رہتا ہے اور انسان كو لازمی طور پر جدید تقاضوں سے ہم آہنگی پیدا كرنے پر آمادہ كرتا رہتا ہے، اس طرح كے تقاضوں سے جنگ نہیں كرنی چاہیے اور نہ جنگ كی جاسكتی ہے ۔

لیكن افسوس كہ كسی عہد كے دوران پیدا ہونے والے نئے مظاہر بہترافكار و نظریات اور كامل تر وسائل و عوامل كے اعتبار س زندگی كے لیے زیادہ سعادت بخش نہیں ہوتے ۔یہ انسان ہی ہے جو اپنے زمانے، ماحول اور معاشرہ كو تشكیل دیتا ہے، اور انسان غلطی سے محفوظ نہیں ہے، اس اعتبار سے انسان كی صرف یہی ذمہ داری نہیں ہے كہ وہ وقر كے دہارے پر بہلتا چلا جائے اور اپنے دور كے افكار و نظریات، عادات و اطوار اور پسند و ناپسند كو اپنا تا چلا جائے اس كی ایك ذمہ داری یہ بھی ہے وقت كی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے اور زمانے كی اصلاح كرے اگر انسان خود كو صدفی صد زمانے كے مطابق بنا تا رہے گا تو پھر وہ زمانے كو كس چیز سے ہم آہنگ كرے گا؟

افلاس فكر ركھنے والے افراد كے لیے زمانے كے تقاضے یعنی"آج كی پسنداور سلیقہ"اور یہ جملہ"آج كی دنیا پسند نہین كرتے"ہر نظری، عملی، صوری، مادی، قیاسی، تجربی، اور استقرائی منطق كی رو سے ان كی شخصیت كو متاثر كرنے اور ان كے غیر مشروط طور پر سر تسلیم خم كر دینے كے لیے بہت كافی ہے، ان لوگون كے طرز فكر كی رو سے خصوصا دنیا نے مگرب میں كسی چیز كا فیشن اور سلیقہ قرار پانا یہ كہنے كے لیے كافی ہے كہ زمانے كے تقاضے بدل گئے ہین، ان كے نزدیك یہ جبر تاریخ ہے اس سے بچنا ممكن نہیں بلندی و ترقی كے لیے اسے اختیار كرنا لازم ہے، حالانكہ یہ انسان ہی ہے جو اپنے زمانے، ماحول اور اجتماعی عوامل كو تشكیل دیا ہے، یہ چیزین عالم قدس سے نازل نہیں ہوریں، انسان خود وہ مغرب كا رہنے والا ہی كیون نہ ہو غلطی غلطی كا سزاوار ہے ۔

انسان عقل اور علم سے آراستہ ہونے كے ساتھ شہوت اور خواہش نفس بھی ركھتا ہے، مصلحت اور زندگی كی طرف وہ اچھے قدم اٹھا تا ہے تو كبھی كبھی اس كے قدم غلط سمت پر بھی اٹھ جاتے ہیں، اس اعتبار سے زمانہ جہان راہ راست پر پیش قدمی كر سكتا ہے وہاں وہ راہ انحراف بھی اختیار كر سكتا ہے، اس لیے جہاں زمانے كی ایسی پیش قدمیوں كا ساتھ دنیا چاہے وہاں اس كے انحرافات كی مزاحمت بھی كرنی چاہیے ۔

لفظ "آزادی" كی طرح "زمانے كے تقاضے"ان كلمات میں سے ایك ہے جن كا مشرق كی سرزمین پر بڑا برا حشر ہوا ہے اور آج یہ كلمہ استعمار كا ایك ایسا مكلم ہتھیار ہے جس سے وہ مشرق كی اصل تہذیب پر ضرب لگائے اور اس پر مغربی روح مسلط كرنے كا كام لیتا ہے كتنے فریب ہیں جو اس عنوان سے دئے جاتے ہیں اور كتنی بد بختیاں ہیں جو اس خوبصورت كتبہ كے ساتھ ہم پر مسلط كی جاتی ہیں ۔

كہا جاتا ہے كہ زمانہ علم ہے، بلا شبہ یہ بات درست ہے لیكن كیا اس سرچشمہ علم كے علاوہ دوسرے تمام سرچشمے انسان كے لیے خشك ہو چكے ہیں اور آج جو كچھ پیش كیا جا تا ہے وہ صحیح و خالص علم كی حیثیت ركھتا ہے؟ آخر كس دور مین ہمارے اس عہد كی مانند علم و دانش كو اس قدر قوت و قدرت اور وسعت حاصل رہی ہے اور كس زمانے میں اس دور كی طرضح علم و دانش اپنی آزادی سے محروم ہو كر شہرت كے عفریت كی غلام اور خود غرضی، جاہ طلبی، زر پر ستی و استحصال كے اژدہون كا شكار رہے ہیں؟

جو لوگ اس بات كے مدعی ہیں كہ زمانے كے تغیر پذیر تقاضے كسی قانون كو ہمیشہ كے لیے باقی نہیں رہے دیتے انہیں چاہیے متذكرہ بالا دو موضوعات كو ایك دوسرے سے الگ كریں تا كہ انہیں معلوم ہو كہ اسلام میں كوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے، جو بہتر زندگی كی جانب پیش قدمی كی مخالف ہو۔

ہمارے اس دور كی مشكل یہ ہے كہ آج كے انسانكو ان دونون باتوں كو الگ كر كے غور كرنے كی بہت كم توفیق ہوتی ہے، وہ قدیم كے ساتھ رشتہ جوڑ كر جمود اختیار كر لیتا ہے اور جو كچھ نیا ہو اس سے لڑنے لگتا ہے یا پھر اس قدر جہلات پر اتر آتا ہے كہ ہر نئی ظاہر ہونے والی چیز كو "زمانے كے تقاضوں" كے نام پر ضروری سمجھنے لگتا ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 next