شاهكار رسالت

مطہرى، مرتضيٰ (آیۃ اللہ شهید)


سطور بالا میں ہم كہہ چكے ہیں كہ بعض انسان ضروریات خواہ ان كا تعلق انفرادی شعبوں سے ہو یا اجتماعی شعبوں سے اپنی مستقل صورت ركھتے ہیں اور وہ تمام انسانوں میں یكساں ہوری ہیں، اسنان اپنی جبلتوں اور عادتوں كے لیے جو نظام وضع كرتا ہے وہ اخلاق كہلاتا ہے اور اجتماعی زندگی كے لیے جو نظام تشكیل دیتا ہے اس عدالت، كا نام دیا جاتا ہے اور وہ اپنے خالق سے جو رابطہ قائم كرتا ہے اور اپنے ایمان كی تجدید و تكمیل كرتا ہے اسے عبادت كہتے ہیں، ان تینوں كا تعلق ان مستقل قسم كی ضروریات سے ہے ۔

انسان كی بعض دوسرے ضروریات تغیر پذیر ہوتی ہیں، جو قانون كے لحاظ سے ایسے قانون سازی كو لازم كرتے ہیں جس میں تبدیلی ہو سكتی ہے، اسلام نے ایسی تغیر پذیر احتیاجات كے لیے وضع قانون كی لچكدار صورت اختیار كی ہے اس طرح اس نے قابل تغیر حالات كے لیے قانون سازی كو مستقل اور غیر متبدل اصولوں كے ساتھ مربوط كر دیا ہے اور وہ اصول ہر تغیر پذیر نئی صورت حال میں خاص متناسب فرعی قانون كو وجود میں لاتے ہیں ۔

ہم صرف دو مچالون پر اكتفا كرتے ہیں ۔

اسلام میں ایك اجتماعی اصول یہ ہے:

"و اعدوا لہم ما استطعتم من قوہ" 16

عنی آخری امكانی حد تك دشمن كے مقابل قوت فراہم كرو اور طاقتور بن كر رہو، كتاب یعنی قرآن ہمیں اس اصول كی تعلیم دیتا ہے، دوسری طرف سنت سے ہمیں ہدایات كا ایك سلسلہ ملتا ہے كہ فہ میں یہ ہدایات "سبق و رمایتہ"كے عنوان سے معروف ہیں، ہدایت كی گئی ہے مسلمان اور ان كے فرزند گھوڑے سواری اور تیر اندازی میں كامل مہارت حاصل كرین، گھوڑے سواری اور تیر اندازی اس دور كے فنون حرب كے ایك اہم جز تھے اور دشمن كے مقابل قور كی فراہمی اور طاقتور بننے كا بہترین ذریعہ تھے، "سبق درمایہ"كے قانون كی اصل تو قرآنكا یہ حكم ہے:"و اعدو لہم ما استطعتم من قوہ"یعنی اسلام كے نقطہ نظر سے تیر، تلوار اور نیزہ اور گھوڑا اصلیت نہیں ركھتے، یہ اسلامی مقاصد كا جز نہیں ہیں، جو بات اصلیت ركھتی ہے، وہ یہ ہے كہ مسلمانوں كو ہر دور اور زمانے میں دشمن كے مقابل اپنے فوجی اور دفاعی وسائل كو آخری حد امكان تك مضبوط طاقتور بنا نا چاہیے ۔

در حقیقت تیر اندازی اور گھوڑا دوڑانے میں مہارت ایك لباس ہے جو دشمن كے مقابل طاقت كے جسم كو پہنایا گیا ہے، دوسرے الفاظ میں تیر اندازی میں مہارت اس زمانے میں طاقتور بننے كی ایك عملی صورت تھی دشمن كے مقابل طاقتور بننے كا لزوم ایك مستقل قانون كی حیثیت ركھتا ہے، جو ایك دائمی اور مستقل ضرورت سے قوت حاصل كرنا ہے لیكن تیر اندازی اور اسب دوانی ایك وقتی ضرورت كا مظہر ہیں اور زمانے كے تقاضوں اور تہذیبی عوامل كی توسیع كے ساتھ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے اور دوسری چیزیں جیسے آج كے جدید اسلحہ كے استعمال میں مہارت كا حصول ان كی جگہ لے لیتی ہیں ۔

دوسری مثال، پیغمبراكرم (ص) نے فرمایا ہے:

"علم و دانش كا حصول ہر مسلمان پر واجب ہے ۔"

حكماء اسلام نے یہ ثابت كیا ہے كہ علم و دانش كا حصول اسلامی نقطہ نظر سے دو صوتوں میں واجب ہے:ایك اس صورت میں جبكہ ایمان كا حصول علم و دانش سے وابستہ ہو، دوسرے اس وقت جب كسی ذمہ داری كا پورا كرنا علم و دانش كے حصول پر منحصر ہو۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 next