شاهكار رسالت

مطہرى، مرتضيٰ (آیۃ اللہ شهید)


"اسلامی كلیات مستقل، غیر متغیراور محدود ہیں لیكن حوادث و مسائل غیر محدود اور متغیر ہیں اور ہر دور مخصوص تقاضوں اور مخصوص مسائل كا حامل ہوتا ہے، اسی لیے ہر دور اور عہد میں ایسے افراد كی ضرورت ہے جو ماہر، اسلامی كلیاتے كے عالم، زمانے كو درپیش مسائل سے آگاہ اور جو كلیات اسلامی كی روشنی میں جدید مسائل میں اجتہاد و استنباط كی صلاحیت كے حامل اور اس ذمہ داری كو پورا كرسكیں ۔"تمدن اسلامی كے درخشان دور میں جبكہ ایك وسیع اور بدوی مسلم معاشرہ ترقی و توسیع كی جانب تیزی سے قدم بڑھارہاتھا اور اس نے ایشیا كے علاوہ اور افرقہ كے بعض حصوں پر غلبہ حاصل كرلیا تھا اور گوناگون نسلوں اور قوموں پر جن میں سے ہر ایك اپنا ایك خاص ماضی اور تہذیب ركھتی تھی، اسے حكومت كرنے كا موقع ملا، اس دوران ہزاروں جدید مسائل پیدا ہوئے ۔مسلمان اس ذمہداری سے بڑی كامیابی كے ساتھہ عہدہ برآہوئے اور دنیا كو حیرت میں ڈال دیا ۔علمائے اسلام نے ثابت كردیا كہ اسلامی سر چشمہ اپنی بہتر تشخیص اپنے بہتر اسنباط سے ترقی و تكمیل كے مراحل سے گزرنے والے كسی بھی معاشرہ كے ساتھہ چل سكتے ہیں اور اس كی رہنمائی كرسكتے ہیں ۔انہوں نے ثابت كردیا ہے كہ "اسلامی حقوق" كا قانون یعنی (etytlpocedure) زندہ ہے اور زمانے كی ترقی سے پیدا ہونے والے تقاضوں كے ساتھہ ہمآہنگی كی قابلیت ركھتا ہے اور ہر دور كی ضروریات كا جواب دےسكتا ہے ۔

مستشرقین اور ماہرین قانون جنہوں نے اس دور كی فقہ اسلامی كی تاریخ كا مطالعہ كیا ہے اس حقیقت كے معترف ہیں اور حقوق اسلامی یعنی اسلام كے (etvilprocedure) كو مستقل "مكتب قانون "كی حثیت سے تسلیم كیا ہے اوور اسے ایك زندہ مكتب قانون قرار دیا ہے ۔

ساتویں صدی ہجری تك اجتہاد كا حق محفوظ تھا اور اس كا دروازہ كھلا ہوا تھا البتہ اس ساتویں صدی میں خاص تاریخی اسباب كی بنا پر شوری اور اجماع كو بنیاد بمناكر علماء سے یہہ حق سلب كرلیا گیا اور علماء ہمیشہ كے لئے دوسری اور تیسری صدی ہجری كے علماء كے نظریات كا اتباع كرنے پر مجبور ہوگئے اور یہیں سے چھہ معروف مذاہب تك فقہی مذاہب كی تجدید وجود میں آئی ۔

اجتہاد كے دروازے كا بند ہوجانا عالم اسلام كا ایك بڑا المناك حادثہ سمجھا جاتا ہے شاید اجتہادات میں افراط كے سلسلہ كے خلاف رد عمل كے طور پر ایسا ہوا ہو بہر كیف فقہ اسلامی میں جمود اور ٹھراؤ اسی وقت سے شروع ہوا ۔

اجتہاد كے دروازے كے بند ہونے كے ناپسندیدہ اثرات اہل تشیع پر بھی مرتب ہوئے ساتویں صدی ہجری كے بعد شیعہ فقہ میں عمیق فكر و نظر پیدا ہوگئی تھی اور بعض شعبوں میں وسیع تبدیلیاں رونماہوئی تھیں ۔اس كے باوجود اس بات سے انكار نہیں كیا جاسكتا كہ اس فقہی سسٹم میں بھی چند صدی پہلے كی طرح مسائل كی تشریح كا رجحان اور وقت كے مسائل كا سامنا كرنے سے گریز اوعر جدید و عمیق تر طریقوں كے دریافت كی جانب سے بے رغبتی واضح صورت میں نظر آتی ہے ۔نہایت افسوس كی بات یہ ہے كہ حالیہ صدیوںں كے دوران نجوانوں اور اصطلاحا روشن فكر مسلمانوں كے طبقے میں مغرب كی طرف میلان، مشرقی و اسلامی روایات كی نفی كی رجحان اور مغربی "آزمون "كی اندھی تقلید كا مرض پیدا ہوگیا ہے ۔بد قسمتی سے یہ مرض بڑھتا جارہا ہے لیكن خوش نصیبی كا پہلو یہہے كہ ان اندھے اور خوابیدہ رجحانات كی تاریكی میں بیداری اور آگاہی كا ایك كرن بھی پھوٹ رہی ہے ۔

اس خواب غفلت میں مبتلا كرنے والی گمراہی كی جڑ وہ غلط تصور ہے جو یہ گروہ اصطلاحا اسلامی ضوابط كے تحكمانہ، ادعائی (dogmatie) پہلو كے بارے میں ركھتا ہے ۔گذشتہ صدیوں كے دوران اجتہاد میں جمود نے ان غلط تصورات كو تقویت فراہم كی ہے ۔قوم كے رہنمائی اور ذمہ دارافراد كا غرض یہ ہے كہ جس قدر جلد ہوسكے علمی و منطقی انداز میں اس طرح كے رجحانات كا مقابلہ كرنے كے لئے اتھہ كھڑے ہوں ۔

اس صورت حال كے اسباب و عوامل كسی سے پوشیدہ نہیں ہیں جس بات پر ہمیں پردہ نہیں ڈالنا چاہیئے وہ یہ ہے كہ فكری جمود اور ٹھراؤ گذشتی صدیوں كے دوران عالم اسلام پر مسلط رہا ہے ۔خسوصا اسلامی فقہ۹ میں جمود ۔ماضی كی طرف دیكھنے اور زمانے كی روح كو سمجھنے اور اس كا سامنا كرنے سے گریز ہماری اس ناكامی اور شكست كا ایك بڑا سبب سمجھا جاتا ہے آج عالم اسلام كو ہمیشہ سے زیادہ ایك ایسی قانون سازی كی تحریك كی ضرورت ہے جو ایك جدید وسیع اور ہمہ گیر نظر سے اسلامی تعلیمات كیگہرائی سے فیض حاصل كرے اور مسلمانوں كے دست و پا كو مغربی افكار و نظریات كے استعماری بندھنوں سے آزاد كرائے ۔

قرآن بے پایان استعداد وسعت كے اعتبار سے فطرت نكی مانند ہے

فلسفہ كے موضوعات میں سے ایك حیرت انگیزز موضوع كا تعلق اسلامی سرچشموں خصوصا، قرآن كریم كے مضامیں میں تحقیق، دریافت و استنباط ہے صرف فقہ اور حقوق كے مسائل ہی نہیں تمام شعبوں كے بارے میں یہی كہا جاسكتا ہے ہر انسانی كتاب خواہ وہ ایك بڑا شاہكار ہی كیاں نہ ہو تحقیق و مطالعہ كے لئے اپنے اندر محدود استعداد اور ختم ہوجانے والی وسعت ركھتی ہے اور اس كتاب كے تمام نكات كو واضح كرنے كے لئے چند ماہرین كافی ہوسكتے ہیں لیكن قرآن نے جن پر گذشتہ چودہ صدیوں كے دوران ہمیشہ سینكڑوں ماہرین تحقیقی كا كرتے رہے ہیں یہ ثابت كردیا ہے كہ تحقیق و اجتہاد كے نقطہ نظر سے وہ بے پایان استعداد اور وسعت اپنے اندر ركھتا ہے ۔قرآن اس اعتبار سے فطرت كے مانند ہے كہ جس قدر فكر و نظر وسیع تر اور عمیق تر ہوتی چلی جاتی ہے قرآن كے مضامین میں تحقیقات و مطالعہ كی پہنائی اور زیادہ وسیع ہوتی چلی جاتی ہے اور نئے سے نئے سے نئے راز سامنے آتے چلے جاتے ہیں مبدا و معاد حقوق، فقہ، اخلاق، تاریخی قصص اور طبیعیات سے متعلق جن مسائل كا ذكر قرآن میں آیا ہے اگر ان كا دقیق مطالعہ كرنے كے بعد چودہ صدیوں كے دوران ابھرنے والے اور پرانے ہوجانے والے نظریات كے ساتھہ موازینہ كیا جائے تو حقیقت پوری طرح روشن ہوجائے گی ۔

فكر و نظر خواہ كتنی ہی ترقی كرجائے اور وسیع تر و عمیق تر ہوجائے وہ خود كو قرآن كے ساتھہ ہم آہنگ پائےگی حقیقت یہ ہے كہ آسمانی كتاب كو جو ایك باقی رہنے والا معجزہ ہے ایسا ہونا چاہئے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 next