شاهكار رسالت

مطہرى، مرتضيٰ (آیۃ اللہ شهید)


قرآن كے نزدیك سن سے بڑا دشمن جمود اور ایك خاص زمانے اور متعین مرحلے كی دانش پر اھصار كرنا ہے جیسا كہ علوم فطرت كی راہ میں سب سے بڑی ركاوت تھی كہ ہمارے علماء یہ سمجھتے تھے كہ فطرت كا علم وہی ہے جو ماضی میں ارسطو اور افلاطون و غیرہ جیسے افراد نے ترتیب دیا ہے ۔

قرآن كے مفاہیم ہر زمانے كے لوگوں كے لئے تر وتازہ ہیں

قرآن كریم حتی كہ خود رسول اكرم (ص) كے جامع كلمات اپنے اندر تحقیق و كاوش كے بے وسعت ركھتے ہیں، اس لئے نظروں كو محدود ہوكر نہیں ہہ جانا چاہئے ۔اول روز سے اسلام كے عظیم رہبر كی وجہ اس جانب رہی ہے اور آپ (ص) اسے اپنے اصحاب كے گوش زد كرتے رہے ہیں رسول اكرم (ص) نے بار بار اپنے كلمات میں اس نكتہ كی طرف توجہ دلائی ہے كہ قرآن كو ایك خاص زمانے كی دانش و بینش كے ساتھہ محدود نہ كرو ۔آپنے فرمایا :"قرآن كا ظاہر خوبصورت اور اس كا باطن عمیق ہے جس كی ایك حد و ںہایت ہے پھر اس كے اوپر ایك اور حد و نہایت ہے اس كے عجائبات كبھی ختم نہیں ہوں گے اور اس كی تازگیوں پر كبھی پژمردگی طاری نہیں ہوگی ۔"

امام صادق علیہ السلام سے سوال كیا گیا :"یہ كیا راز ہے كہ قرآن كو لوگوں كے درمیان جس قدر پھلایاجاتا ہے اور اسے پڑھاجاتا ہے اور اس كے بارے میں بحث و فكر كی جاتی ہے اسی قدر اس كی طراوت و تازگی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ؟ "امام (ع) نے جواب دیا :"ایسا اس لئے ہے كہ قرآن كو ایك خاص و زمان كے لئے اور كسی خاص قوم كے لئے نازل نہیں كیا گیا ہے قرآن تمام زمانوں كے لئے اور تمام انسانوں كے لئے ہے اس اعتبار سے وہ ہر زمانے میں جدید ہے اور تمام لوگوں كے لئے ہروقت تاززہ ہے ۔"

رسول اكرم (ص) جب اپنی احادیث كو ٹھیك ٹھیك یاد كرنے اور دوسروں تك پہچانے كی تاكید فرماتے تھے تو اس میں یہ خاص نكتہ پوشیدہ ےھا كہ شاید جس شخص نے آپ سے براہ راست آپ كی احادیث كو سنا ہو تفقہ سے بہرہ مند نہ ہو اور وہ كسی صاحب دانش و بینش تك انہیں منتقل كرنے كے لئے محض ایك رابطے كا كام دے یا پھر جو شخص آپ سے حادیث سنے وہ تفقہ سے بہرہ منر ہو لیكن اس كے ذریعہ جس شخص تك كی كوئی حدیث پہچانے والے سے زیادہ تفقہ كا مالك ۔

تاریخ سے یہ بات ثابت ہوچكی ہے كہ بعد كے زمانوں میں آن حضور (ص) كی احادیث مفاہیم و مطالب كے سمجھنے میں پہلے سے زیادہ تفقہ سے كام لینے كی ضرورت پیش آئی۔

اجتہاد كی اضافیت

ترقی و تكمیل كی طرف مسلسل بڑھنے والی دانش و بینش كا اثر كسی جگہ اس قدر محسوس نہیں كیا جاسكتا جس قدر كہ فقہی مسائل میں اسے دیكھا جاسكتا ہے ۔فقہ اسلامی پر كئی دور گزد چكے ہیں ہر دور میں ایك خاص طرز فكر اور ایك خاص دانش حكمفرما رہی ہے ۔آج كے استنباط كے قواعد سے مختلف ہیں ۔ایك ہزار سال پہلے كے علماء جیسے شیخ طوسی یقینا ایك ممتاز مجتہد رہے ہیں اور لوگوں نے ان كی جو پیروی و تقلید كی ہے وہ صحیح ہے قدیم علماء كا طرز فكر ان كی ایسی كتابوں سے واضح ہے جو فقہ خصوصا اصول فقہ پر لكھی گئی ہیں ۔

شیخ طوسی كی اصول فقہ پر بعض كتابیں ان كے طرز تفكر كو بخوبی ظاہر كرتی ہیں یہ كتابیں آج بھی موجود ہیں ۔

حالیہ ادوار كے فقہاء پر نظر ڈالیں تو یہ معلوم ہوتا ہے كہ وہ سابق طرز تفكر منسوخ ہوگیا ہے ۔اس لئے كہ جدید تر عمیق تر اور وسیع تر دانش نے پرانے طرز فكر كی جگہ حاصل كرلی ہے ۔جیسا كہ موجودہ دور میں سماج، نفسیات اور قانون كے شعبوں میں علم و دانش نے فقہی مسائل میں زیادہ گہرائی كے امكانات پیدا كردئے ہیں ۔

اگر كوئی شخص یہ پوچھے كہ كیا اس سابق عہد كے علماء اپنے اس وقت كے تفقہ اور طرز فكر كے ساتھہ مجتہد كے مقام پر فائز رہے ہیں ؟ اور كیا وہ اس بات كے مستحق تھے كہ عوام ان كی تقلید كرتے اور ان كے تفقہ كو اسلامی ضوابط كی تشخیص و تدوین كا اہل قرار دیتے ؟ ان سوالات كا جواب اچبات میں دیا جائے گا ۔

پھر اگر یہ سوال كیا گیا كہ موجودہ دور میں اگر كوئی شخص یہ چاہے كہ چاتھی اور پانچویں سدی كے بعد كی تمام كتابیں اور تالیفات اور آچار كو جوں كا توں قبول كرلے اور خود كو پانچویں صدی میں فرض كرے اور شیخ طوسی جیسے علماء نے جن كتابوں كا مطالعہ كیا تھا ان ہی كا وہ بھی مطالعہ كرے اور وہی طرز تفكر اور وہی تفقہ اپنے اندر پیدا كرے جو ان علماء نے اپنے اندر پیدا كیا تھا تو كیا وہ مجتہد كہلاسكے گا اور لوگوں كو یہ حق حاصل ہوگا كہ اس كی تقلید كریں ؟ اس كا جواب نفی میں دیا جائے گا ۔آخر ایسا كیوں ؟ اس شخص كے درمیان اور پانچویں صدی كے لوگوں كے درمیان كیا فرق ہے؟

فرق یہ ہے كہ ان علماء نے جس دور میں زندگی بسر كی تھی اس كی دانش و بینش اسی دور كے لئے تھی یہ شخص ایسے عہد میں زندگی بسر كررہا ہے جس میں ماضی كے اس طرز تفكر اور تفقہ كی جگہ ایك جدید تر طرز تفكر اور تفقہ نے لے لی ہے اور ماضی كا وہ طرز تفكرات منسوخ ہوچكا ہے ۔

اس سے یہ بات بخوبی سمجھی جاسكتی ہے كہ اجتہاد ایك اضافی اور تكاملی مفہوم ركھتا ہے ہر دور ایك مخصوص دانش و بینش پیدا كرا ہے ۔یہ اضافیت دو چیزوں سے ختم ہوجاتی ہے ۔اشف و تحقیق كے لئے اسلامی سرچشموں كی بے پایان وسعت و صلاحیت اور دوسرے انسانی افكار اور علوم طبیعی كی تكمیل خاتمیت كا سب سے بڑا راز یہی ہے ۔

 

--------------------------------------------------------------------------------

18.سورۀآل عمران، آیت ۱۰۴.



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34