شاهكار رسالت

مطہرى، مرتضيٰ (آیۃ اللہ شهید)


"و خلق الانسان ضعیفاً" 5

ترجمہ:"انسان كمزور طپیدا كی گیا ہے ۔"

اپنی زندگی كا آغاز صفر سے كرتا ہے اور ترقی كے لامتناہی راستے پر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے ۔انسان فطرت كا ایك ہونہار اور بالغ فرزند ہے اسی لئے اسے آزادی و خود مختاری حاصل ہے اسے كسی مستقل ناظم و سرپرست اور ایسی جبری ہدایت كی ضرورت نہیں جس پر عمل كرنے كے لئے كوئی پوشیدہ اندرونی قوت اسے مجبور كرے ۔دوسرے جاندار جو كچھ جبلت كے سامنے سر جھكا كر انجام دیتے ہیں وہ انسان آزادانہ ماحول میں عقل و قانین كے مطابق انجام دیتا ہے:

"انا ہدینٰہ السبیل اما شاكراًو اما كفوراً" 6

ترجمہ:"ہم نے اسے راستہ دكھا دیا خواہ شكر كرنے والا ہے یا كفر كرنے والا ۔"

انسان میں انحراف و سقوط اور جمود و انحطاط پایا جاتا ہے جبكہ دوسرے جاندار ایك حالت پر قائ رہتے ہیں ۔وہ اس بات پر قدرت نہیں ركھتے كہ سوچ سمجھ كر كہ خود آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں، سیدھی جانب كا رخ كریں یا بائیں سمت كا تیز چلیں یا آہستہ اس كے بر عكس انسان اپنی عقل و شعور سے كام لے كر آگے بھی قدم بڑھا سكتا ہے پیچھے بھی ہٹ سكتا ہے وہ دائیں یا بائیں كسی بھی سمت مڑسكتا ہے وہ تیز بھی چل سكتا ہے اور آہستہ بھی وہ ایك بندۀ شاكر بھی بن سكتےا ہے اور سركس كافر بھی۔اس طرح وہ افراط و تفریط كے درمیان كحڑا نظر آتا ہے ۔

انسانی معاشرہ كبھی اس طرح عادات كا اسیر اور جامد و ساكن ہوجاتا ہے كہ كوئی موثر طاقت ہی اس كی زنجیروں كو كاٹ كر اسے حركت میں لاسكتی ہے ۔كبھی انسانی معاشرہ پر حرص و طمع اور نئی راہوں پر چلنے كی خوہش اس طرح مشلط ہوجاتی ہے كہ وہ فطرت كے اصول و قوانین تك كو بھلا بیٹھتا ہے اور كبھی وہ غرور و خود پرستی اور تكبر میں غرق ہوجاتا ہے، اسے خود بینی كی راہ سے ہٹا كر زہد و پرہیزگاری كی راہ پر ڈالنے كے لئے كسی اثر انداز ہونے والی طاقت كی ضرورت ہوتی ہے تاكہ وہ اپنے حقوق كے ساتھ دوسروں كے حقوق كا بھی خیال ركھ سكے جب یہی انسانی معاشرہ آرام طلبی مادر پدر آزادی اور ظلم و ستم كی راہ پر چل پڑتا ہے تو اس كے ضمیر كو جھنجھوڑ نے اور اس میں حقوق كا شعور احساس كے پیدا كرنے كے سوا اور چارہ نہیں ہوتا ۔

یہ بات واضح ہے كہ تیزی كے ساتھ پیش قدمی ہو یا سست روی بائیں جانب میلان ہو یا دائیں جانب ان میں سے ہر ایك كے لئے ایك خاص لائحہ عمل كی ضرورت ہوتی ہے ۔اگر معاشرہ كا انحراف دائیں جانب ہو تو اصلاح كرنے والی طاقت كو اسے بائیں جانب موڑنے كی كوشش كرنی ہوگی دورسری صورت میں اسے اس كے بر عكس عمل كرنا ہوگا ۔

ہی وجہ ہے كہ كسی ایك زمانے اور كسی ایك قوم كی اصلاح كے لئے كوئی تدبیر دوا كی حیثیت ركھتی ہے تو وہی تدبیر دوسرے دور اور دوسری قوم كے لئے ایك مرض مہلك میں مبتلا كرنے كا سبب بن سكتی ہے چنانچہ بظاہر مختلف انبیاء كے درمیان ایك اختلاف نظر آتا ہے كسی پیامبر (ص) كو جنگ كی راہ اختیار كرنی پڑتی ہے تو كسی كو صلح كی كوئی نبی نرمی سے كام لیتا ہے تو كوئی سختی سے كسی پیغمبر كو انقلابی انداز میں كام كرنا پڑتا ہے تو كسی كو اعتدال و سلامتی كی راہ اپنانی پڑتی ہے ۔ایك پیغمبر كا سارا دور ابتلاؤ آزمایش سے بھرا ہوتا ہے تو دوسرے پیغمبر كے حصے میں فتح و نصرت بھی آتی ہے ۔انبیاء كے درمیان اختلافات كا تعلق ان كے اس روئے سے ہے جو وہ اپنے زمانے كے حالات كے پیش نظر اختیار كرتے ہیں ورنہ ہدف كے اعتبار سے ان كے درمیان كوئی اختلاف نہیں ہے ہدف تمام انبیاء كا یك ہی ہے اور راستہ وہی صراط مستقیم ہے ۔

قرآن كریم نے قصص انبیاء كے ضمن میں پوری طرح اس بات كی نشان وہی كی ہے كہ پیغمبروں میں سے ہر ایك مبداء و معاد سے متعلق اپنی مشترك تعلیمات كے تحت كسی ایك خاص نكتہ پر زور دیتا ہے وہ ایك مخصوص لائحہ عمل كے اجراء پر مامور ہوتا ہے یہ بات قصص قرآنی كے مطالعہ سے بخوبی روشن ہوجاتی ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 next