قرآن مجید میں بعض خواتین کا تذکرہ

حافظ ریاض حسین نجفی


وَرَاوَدَتْہُ الَّتِیْ ہُوَ فِیْ بَیْتِہَا عَنْ نَّفْسِہ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ ہَیْتَ لَکَ قَالَ مَعَاذَ اللہ إِنَّہ رَبِّیْ أَحْسَنَ مَثْوَایَ إِنَّہ لَایُفْلِحُ الظَّالِمُوْنَ وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہ وَہَمَّ بِہَا لَوْلَاأَنْ رَّأ بُرْہَانَ رَبِّہ کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّہ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِیْصَہ مِنْ دُبُرٍ وَّأَلْفَیَا سَیِّدَہَا لَدٰ الْبَابِ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَہْلِکَ سُوْئًا إِلاَّ أَنْ یُّسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ قَالَ ہِیَ رَاوَدَتْنِیْ عَنْ نَّفْسِیْ وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِّنْ أَہْلِہَا إِنْ کَانَ قَمِیْصُہُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَہُوَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ وَإِنْ کَانَ قَمِیْصُہ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَہُوَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ فَلَمَّا رَأَ قَمِیصَہ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّہ مِنْ کَیْدِکُنَّ إِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ۔

"اور یوسف جس عورت کے گھر میں تھے۔اس نے انہیں اپنے ارادہ سے منحرف کر کے اپنی طرف مائل کرنا چاہا اور سارے دروازے بند کر کے کہنے لگی آ جاؤ۔ یوسف نے کہا پناہ بہ خدا! یقیناً میرے رب نے مجھے اچھا مقام دیا ہے بے شک ظالموں کو فلاح نہیں ملا کرتی اور اس عورت نے یوسف کا ارادہ کر لیا اور یوسف بھی اس کا ارادہ کر لیتے اگر وہ اپنے رب کے برہان نہ دیکھ چکے ہوتے۔ اس طرح ہوا ، تاکہ ہم ان سے بدی اور بے حیائی کو دور رکھیں کیونکہ یوسف ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھے۔ث دونوں آگے نکلنے کی کوشش میں دروازے کی طرف دوڑ پڑے اور اس عورت نے یوسف کا کرتا پیچھے سے پھاڑ دیا اتنے میں دونوں نے اس عورت کے شوہر کو دروازے پر موجود پایا۔ عورت کہنے لگی جو شخص تیری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے اس کی سزا کیا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ اسے قید میں ڈالا جائے یا دردناک عذاب دیا جائے۔ یوسف نے کہا یہی عورت مجھے اپنے ارادہ سے پھسلانا چاہتی تھی اور اس عورت کے خاندان کے کسی فرد نے گواہی دی کہ اگر یوسف کا کرتا آگے سے پھٹا ہے تو یہ سچی ہے اور یوسف جھوٹا اور اگر اس کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہے تو یہ جھوٹی ہے اور یوسف سچا ہے جب اس نے دیکھا تو کرتا تو پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تواس (کے شوہر ) نے کہا بے شک یہ تو تمہاری فریب کاری ہے بتحقیق تم عورتوں کی فریب کاری تو بہت بھاری ہوتی ہے۔" (یوسف: ۲۳ تا ۲۸ ) یہ بہت بڑا واقعہ تھا ایک طرف بے چارا اور زر خرید غلام ہے جبکہ دوسری طرف بادشاہ کی بیوی۔ چہ می گوئیاں ہوئیں۔تو شاہ مصر کی زوجہ نے محفل سجائی عورتوں کو دعوت میں بلایا اور میوا جات رکھ دیئے گئے پھر ان سے کہا گیا کہ چھری کانٹے ہاتھ میں لے لو۔ دعوت ِ خورد و نوش شروع ہوئی، ادھر سے پھل کٹنا شروع ہوئے اُدھر سے یوسف کو بلا لیا گیا۔ وہ عورتیں حسنِ یوسف سے اس قدر حواس باختہ ہو گئیں کہ بہت سی عورتوں نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں کاٹ لیں۔واہ رے حسنِ یوسف! ارشاد رب العزت ہے :

وَقَالَ نِسْوَۃ فِی الْمَدِیْنَۃ امْرَأَتُ الْعَزِیْزِ تُرَاوِدُ فَتَاہَا عَنْ نَّفْسِہ قَدْ شَغَفَہَا حُبًّا إِنَّا لَنَرَاہَا فِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَکْرِہِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَیْہِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَہُنَّ مُتَّکَأً وَّآتَتْ کُلَّ وَاحِدَۃ مِّنْہُنَّ سِکِّیْنًا وَّقَالَتِ اخْرُجْ عَلَیْہِنَّ فَلَمَّا رَأَیْنَہ أَکْبَرْنَہ وَقَطَّعْنَ أَیْدِیَہُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّہِ مَا ہَذَا بَشَرًا إِنْ ہَذَا إِلاَّ مَلَکٌ کَرِیْمٌ قَالَتْ فَذَلِکُنَّ الَّذِیْ لُمْتُنَّنِیْ فِیْہِ وَلَقَدْ رَاوَدْتُّہ عَنْ نَّفْسِہ فَاسْتَعْصَمَ وَلَئِنْ لَّمْ یَفْعَلْ مَا آمُرُہ لَیُسْجَنَنَّ وَلَیَکُونًا مِّنَ الصَّاغِرِیْنَ قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْ إِلَیْہِ۔

"شہر کی عورتوں نے کہنا شروع کر دیا کہ عزیز مصر کی بیوی اپنے غلام کو اس کے ارادہ سے پھسلانا چاہتی ہے اس کی محبت اس کے دل کی گہرائیوں میں اثر کر چکی ہے ہم تو اسے یقیناً صریح گمراہی میں دیکھ رہے ہیں پس اس نے جب عورتوں کی مکارانہ باتیں سنیں تو انہیں بلا بھیجا اور ان کیلئے مسندیں تیار کیں اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں چھری دے دی (کہ پھل کاٹیں) پھر اس نے یوسف سے کہا ان کے سامنے سے گزرو۔ پس جب عورتوں نے انہیں دیکھا تو انہیں بڑا حسین پایا اور وہ اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور کہے اٹھیں سبحان اللہ یہ بشر نہیں ہو سکتا یہ تو کوئی معزز فرشتہ ہے! اس نے کہا یہ وہی ہے جس کے بارے میں تم مجھے طعنے دیتی تھیں اور بے شک میں نے اس کو اپنے ارادہ سے پھسلانے کی کوشش کی تھی مگر اس نے اپنی عصمت قائم رکھی اور اگر یہ میرا حکم نہ مانے گا تو ضرور قید کر دیا جائے گا اور خوار بھی ہو گا۔ یوسف نے کہا:اے میرے رب! مجھے اس چیز سے قید زیادہ پسند ہے جس کی طرف یہ عورتیں دعوت دے رہی ہیں۔" (یوسف ۳۰ تا ۳۳) یوسف قید میں ڈال دئے گئے اور وہاں انہوں نے دو قیدیوں کے خواب کی تعبیر بیان کی اس کی خبر عزیز مصر کو ہو گئی پھر بادشاہ کے خواب کی تعبیر بھی بتائی جو ملک و ملت کیلئے مفید تھی تب بادشاہ نے یوسف کو قید خانے سے بلا بھیجا جب قاصد یوسف کے پاس آیا تو کہا :

وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہ فَلَمَّا جَاءَ ہُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ إِلٰی رَبِّکَ فَاسْأَلْہ مَا بَالُ النِّسْوَۃ الَّتِیْ قَطَّعْنَ أَیْدِیَہُنَّ إِنَّ رَبِّیْ بِکَیْدِہِنَّ عَلِیْمٌ قَالَ مَا خَطْبُکُنَّ إِذْ رَاوَدْتُّنَّ یُوسُفَ عَنْ نَّفْسِہ قُلْنَ حَاشَ لِلَّہِ مَا عَلِمْنَا عَلَیْہِ مِنْ سُوْءٍ قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِیْزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُّہ عَنْ نَّفْسِہ وَإِنَّہ لَمِنَ الصَّادِقِیْنَ ذٰلِکَ لِیَعْلَمَ أَنِّیْ لَمْ أَخُنْہُ بِالْغَیْبِ وَأَنَّ اللہ لاَیَہْدِیْ کَیْدَ الْخَائِنِیْنَ

"اور بادشاہ نے کہا یوسف کو میرے پاس لاؤ پھر جب قاصد یوسف کے پاس آیا تو انہوں نے کہا اپنے مالک کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا مسئلہ کیا تھا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے میرا رب تو ان کی مکاریوں سے خوب واقف ہے۔ بادشاہ نے عورتوں سے پوچھا اس وقت تمہارا کیا حال تھا جب تم نے یوسف کو اپنے ارادے سے پھسلانے کی کوشش کی تھی؟ سب عورتوں نے کہا ہم نے یوسف میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔(اس موقع پر) عزیز کی بیوی نے کہا اب حق کھل کر سامنے آگیا ہے میں نے یوسف کو اس کی مرضی کے خلاف پھسلانے کی کوشش کی تھی اور یوسف یقیناً سچوں میں سے ہیں (یوسف نے کہا)ایسا میں نے اس لئے کیا تاکہ وہ جان لے کہ میں نے عزیز مصر کی عدم موجودگی میں اس کے ساتھ کوئی خیانت نہیں کی اور اللہ خیانت کاروں کے مکر و فریب کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کرتا۔" (یوسف :۵۰تا ۵۲) بہرحال حضرت یوسف بادشاہ کے بلانے پر فورا نہیں گئے بلکہ اپنی برأت کے اثبات کے بعد با عزت و عظمت اور عصمت کے ساتھ بادشاہ کے ہاں گئے۔ عورتوں کے مکر سے محفوظ رہے عصمت پر کوئی دھبہ نہیں لگنے دیا اسی طرح بھائیوں کی ریشہ دانیاں نا کار ہو گئیں اور یوسف عزت و عظمت کی بلندیوں تک پہنچے۔ وہی بھائی تھے ، انہوں نے معذرت کی۔ ماں و باپ خوش ہوئے اور سجدہ شکر بجا لائے اللہ کا فرمان ثابت رہا کہ تو میرا بن جا میں تیرا بن جاؤں گا۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ مردوں میں بھی اچھے برے موجود ہیں اور یہی حال عورتوں کا بھی ہے۔ یوسف کے بھائی غلط نکلے، عورتیں مکار ثابت ہوئیں لہذا مرد بحیثیت مرد عورتوں سے ممتاز نہیں ہے۔ بلکہ عورت و مرد میں معیار تفاضل تقویٰ ہے جو تقوی رکھتا ہو گا خواہ مرد ہو یا عورت ،وہ اللہ کا بندہ اور مومن ہو گا اور جو تقوی سے خالی ہے خواہ مرد ہو یا عورت، ظاہری طور پر انسان ہو گا لیکن حقیقت میں حیوان ہو گا۔

 

زوجہ حضرت ایوب

ارشاد رب العزت ہے :

وَاذْکُرْ عَبْدَنَا أَیُّوْبَ إِذْ نَادٰی رَبَّہُ أَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطَانُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ ہَذَا مُغْتَسَلٌم بَارِدٌ وَّشَرَابٌ وَوَہَبْنَا لَہ أَہْلَہ وَمِثْلَہُمْ مَّعَہُمْ رَحْمَۃ مِّنَّا وَذِکْرٰی لِأُوْلِی الْأَلْبَابِ وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِہ وَلاَتَحْنَثْ إِنَّا وَجَدْنَاہُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّہ أَوَّابٌ۔ "

اور ہمارے بندے ایوب کا ذکر کیجئے۔ جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا۔ شیطان نے مجھے تکلیف اور اذیت دی ہے ( ہم نے کہا ) اپنے پاؤں سے(زمین پر)ٹھوکر مارو! یہ ہے ٹھنڈا پانی نہانے اور پینے کیلئے ،ہم نے انہیں اہل و عیال دیئے اور اپنی خاص رحمت سے ان کے ساتھ اتنے ہی اور دے دیئے اور عقل والوں کے لئے نصیحت و عبرت قرار دی۔ اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو تھام لو اسے مارو اور قسم نہ توڑ وبتحقیق ہم نے انہیں صابر پایا وہ بہترین بندے تھے بے شک وہ (اپنے رب کی طرف) رجوع کرنے والے تھے۔" (ص :۴۱ تا ۴۴) حضرت ایوب کی حیران کن زندگی صبر و استقامت کی اعلیٰ مثال تھی ان کی زوجہ محترمہ کا بے مثال ایثار مشکلات میں گھرے ہوئے انسانوں کیلئے مشعل راہ ہے۔ حضرت ایوب کی فراوان دولت، کھیتیاں، بھیڑ بکریاں اور آل و اولاد سب ختم ہو گئے اور وہ نان جویں کے محتاج ہو گئے، رشتہ دار اور دوست و احباب اور ماننے والے سب چھوڑ گئے وہ تن و تنہا اپنی پردہ دار زوجہ ،نبی کی بیٹی زوجہ کے ساتھ زندگی گزارتے رہے ایسی کہ زوجہ لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کے گذر بسر کرتی رہی اور پھر دوسری طرف شماتت اعداء کا ہجوم تھا۔ حضرت ایوب سے پادریوں کا ایک وفد ملا اور کہنے لگا جناب ایوب ! لگتا ہے آپ سے کوئی بہت بڑا گناہ ہوا ہے حالانکہ حقیقت یہ تھی ایوب صابر و شاکر تھے اللہ نے ان کی بہت تعریف کی تو شیطان نے کہا جب ایوب کے پاس سب کچھ موجود ہے تو وہ صبر و شکر نہ کرے تو کیا کرے؟ بات تو تب ہے جب کچھ نہ ہو تو پھر صبر کرے۔ امتحان شروع ہوا سب کچھ ختم ہو گیا ۔یکہ و تنہا ، بے یار و مددگار، مریض اور لاچار ہو گئے لیکن کیا کہنا عظمت زوجہ کا کہ انہوں نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ مزدوری کی زحمت اٹھائی۔ایک دن کسی حکیم نے کہا میں دوا دیتا ہوں ٹھیک ہو جائیں گے لیکن ایک شرط ہے۔ آپ کو کہنا ہو گا کہ مجھے حکیم نے شفا دی ہے ان کی بیوی نے ہاں کر دی حضرت ایوب نے بہت برا منایا اور سزا دینے کی قسم کھا لی۔ اب جب مصائب کا تلاطم ختم ہوا اور نصمات لوٹ آئیں تو قسم پوری کرنے کا مسئلہ پیدا ہوا خدا نے فرمایا : ایسی بے مثال زوجہ توکسی کو نصیب نہیں ہوئی اس بے چاری کی اس قدر خدمات ہیں اس کے باوجود تم سزا کا سوچ رہے ہیں ہرگز نہیں بلکہ اللہ کا نام سب سے بڑا ہے تم جھاڑو لے لو اور اسے سزا کا آلہ قرار دو تاکہ قسم نہ ٹوٹے اور بات بھی پوری ہو جائے۔ ایوب نبی تھے صابر تھے عبد خاص تھے ہمیشہ اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے ان تمام صفات کے ساتھ وہ نبی تھے۔ کیا کہنا زوجۂ ایوب کا (عورت کی عظمت ) کہ سب چھوڑ گئے لیکن اس کا ایثار اور اس کی خدمت میں کوئی کمی نہیں آئی اسی لئے کہا گیا کہ اے مرد زوجہ کی اچھائی پورے گھر کو جنت میں بدل دیتی ہے عورت کی ذہانت اور اخلاق سے تیرا گھر جنت بن جاتا ہے تو بھی اچھا رہے عورت بھی اچھی رہے جبکہ آج کے زمانے میں برا گھر ہی تیرے لئے جنت بنا ہوا ہے۔ ۷۔ مادر موسیٰ۔ ۸۔ خواہر موسیٰ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next