اسلامى تمدن ميں علوم كى پيش رفت



علوم كى درجہ بندي:

كلى طور پر ديكھا جائے تو اسلامى دانشوروں كى آغاز ميں عالم طبيعت بالخصوص انسان ÙƒÛ’ حوالے سے علم طب ميں انہى حدود ÙƒÛ’ اندر نگاہ تھى كہ جو يونانى علماء Ù†Û’ متعين كى تھيں اسى طرح علم فلكيات ÙƒÛ’ حوالے سے وہى بطلميوس كا زمين كو مركز قرار دينے والا نظريہ ركھتے تھے، ليكن اسلامى دانشوروں كى تحقيق Ùˆ مطالعہ Ù†Û’ انہيں ان نظريات سے مختلف حقائق سے آشنا كيا، لہذا طب، علم فلكيات ØŒ رياضى ØŒ فزكس ÙƒÛ’ حوالے سے عالم اسلام ميںايسے نكات اور قواعد سامنے آئے كہ جنكے بارے ميں كہا جاسكتا ہے كہ وہ كسى بھى طرح سے يونان سے نہيں ليے گئے بلكہ وہ اساسا اسلامى مفكرين كى كاوشوں كا نتيجہ ہيں ØŒ اس حوالے سے مزيد تجزيہ Ùˆ تحليل كيلئے ضرورى ہے كہ سب سے پہلے ہم اسلامى تمدن ميں علوم كى درجہ بندى پر نگاہ ڈاليں ،يو ںان تمام علوم كى اقسام ميں اسلامى دانشوروں اور انكى تحقيقات سے آشنا ہونے ÙƒÛ’ ساتھ ساتھ ان حقيقى نكات اور مسائل كا تجزيہ كريں كہ جو يونانى علوم كى حدود اور معيار سے ہٹ كر سامنے آئے  _

اسلام ميں علوم كى درجہ بندى كے حوالے سے مختلف روشيں موجود ہيں اوريہ روشيں عام طور پر اپنے بانيوں كى اپنے ارد گرد كے جہان پر انكى خاص نگاہ سے وجود ميں آتى رہيں ، پہلى درجہ بندى ميں علوم كود و اقسام نظرى اور عملى ميں تقسيم كيا گيا ، البتہ يہاں ابھى ان علوم عملى كى كيفيت اور انجام كے طريقہ كار كو مد نظر نہيں ركھا گيا، علوم نظرى كہ جنہيں حكمت نظرى سے بھى تعبير كيا گياہے ان ميں اصول شناخت و معرفت زير بحث ہيں اور بحث كا موضوع وجود اور اسكا مادے سے تعلق كى حالت ہے ،يہ علوم پھر تين اقسام ميں تقسيم ہوئے ہيں علم الہى (علم اعلي) وہ امور جو مادہ سے جدا ہيں ،علم حساب و رياضى (علم اوسط) ان علوم كى بحث مكمل طور پر ذہنى اور مادہ سے ہٹ كرہے اور علم طبيعى (علم ادني) جو مادہ كے بارے ميں بحث كرتا ہے خواہ وہ ذہنى صورت ميں ہو ں يا ذہن سے باہر كى دنيا ميں _

اسى طرح علوم عملى بھى تين اقسام ميں تقسيم ہوتے ہيں :

''علم اخلاق ''كہ جو انسان كى انفرادى و ذاتى زندگى سے مربوط ہے ،علم'' تدبير منزل'' كہ جوگھرانے سے متعلق ہے اور علم سياست كہ جو معاشرہ كے مسائل سے متعلق ہے ،يہ درجہ بندى يونانى فلسفہ بالخصوص ارسطو كے فلسفہ كے زير اثر تشكيل پائي_

دوسرى درجہ بندى علوم كے اپنے حقيقى ہدف كے ساتھ بلاواسطہ تعلق كى بنا پر ہے يعنى ان مختلف علوم سے ايك معين ہدف تك پہنچے كيلئے فائدہ اٹھا يا جا تا ہے ، مثلا حكمت نظرى يا شرعى علوم ميںشناخت و معرفت كومركزيت حاصل ہے جبكہ ديگر علوم مثلا صرف ونحو(گرائمر كے قواعد) ان كو سمجھنے ميں مدد ديتے ہيں_

تيسرى درجہ بندى ميں علوم دو قسموں اسلامى اور غير اسلامى ميں تقسيم ہوتے ہيں ، علوم اسلامى وہ علوم ہيں كہ جنكا سرچشمہ مكمل طور پر مسلمانوں كى فكر و نظر ہے ، جبكہ علوم غير اسلامى وہ علوم ميں كہ جنكے اصول ديگر تہذيبوںں سے اسلام ميں پہنچے اور مسلمانوں نے اپنى تحقيقات ميں انہيں وسعت دى اور مختلف شاخوں ميں تقسيم كيا_

چوتھى درجہ بندى ميں علوم دو قسموں شرعى اور غير شرعى ميں تقسيم ہوتے ہيں علوم شرعى سے مراد وہ چيزيں ہيں كہ جو پيغمبر اكرم(ص) اور ائمہ اطہار سے ہم تك پہنچيںكہ جن ميں اصول و فروع دين مقدمات اورمتممات دين شامل ہيں جبكہ علوم غير شرعى سے مراد فقط علوم عقلى ہيں مثلا رياضيات و غيرہ _

پانچويں درجہ بندى ميں علوم دو قسموں عقلى اور نقلى (منقول )ميں تقسيم ہوتے ہيں يہاں علوم عقلى سے مراد حكمت ، كلام اور فلسفہ و غيرہ ہے جبكہ علوم نقلى سے مراد شرعى اور وہ معلومات كہ جو مختلف علوم مثلا علم فلكيات اور طب و غيرہ سے حكايت ہوئي ہيں_

وہ اسلامى دانشور حضرات كہ جنہوں نے علوم كى درجہ بندى كے موضوع پر تحقيق كى ان ميں دو افراد كى رائے بہت اہميت كى حامل ہے ، ابونصر فارابى (متوفي329 قمري)اور محمد بن يوسف خوارزمى (متوفى 387 قمري)

جناب فارابى وہ پہلے اسلامى دانشور ہيں جنہوں نے علوم كى درجہ بندى پر خصوصى توجہ كى انہوں نے اپنے خاص فلسفى ذوق كے ساتھ اپنى اہم كتاب '' احصاء العلوم'' ميں علوم كى درجہ بندى كو كلى طور پر'' آگاہي'' يا انكى اپنى تعبير ميں'' معرفت ''كو انہوں نے پانچ ابواب ميں تقسيم كيا ہے : علم زبان ، منطق ، رياضيات ، علوم طبيعى و الہى اور حكمت عملى يااخلاق ، فارابى نے علوم طبيعى اور الہى كو چوتھے باب ميں اس ليے پيش كيا كيونكہ دونوں علم طبيعى موجودات كے بارے ميں گفتگو كرتے ہيں فقط اس فرق كے ساتھ كہ ايك ميں موجودات وجود مطلق يا واجب الوجود كے ساتھ متصل ہوتے ہيں جبكہ دوسرے ميں خود ''واجب الوجود'' مورد توجہ قرار پاتاہے_



1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 next