اسلامى تمدن ميں علوم كى پيش رفت



اس دور ÙƒÛ’ مورخين كى ايك بڑى تعدا دصفوى بادشاہوں كى حكومت كى تاريخ كو تاريخ نگارى كا بنيادى موضوع قرار ديے ہوئے تھى _ اس حوالے سے بہت سى كتابيں تاليف ہوئيں ان ميں سے بوداق منشى قزوينى كى ''جواہر الاخبار ''قابل تذكرہ ہے  _

افشاريہ اور زنديہ سلسلہ حكومت كے ادوار ميں صفوى تاريخ نگارى شيعى رحجان كے ساتھ جارى رہى اس دوران كے اہم ترين مورخين ميں سے نادر شاہ كے مخصوص منشى ميرزا مہدى خان استر آبادى تھے كہ جنہوں نے بہت سے تاريخى آثار چھوڑے ان ميں سے ''درّہ نادرہ'' اور'' جہانگشاى نادري'' قابل ذكر ہيں _ زنديہ سلسلہ حكومت كے دور ميں بھى ہم ''محمل التواريخ ''كے مصنف ابوالحسن گلستانہ ''روزنامہ ميرزا محمد كلانتر ''كے مصنف ميرزا محمد كلانتر اور ''تاريخ گيتى گشا ''كے مصنف ميرزا صادق موسوى اصفہانى جسے مورخين سے آشنا ہوتے ہيں_

قاجاريہ سلسلہ حكومت ÙƒÛ’ دور ميں فارسى زبان ميں ايرانى تاريخ نويسى ايك اہم تبديلى سے دوچار ہوئي جسكى بناپر اس دور كى تاريخ نگارى كودو اقسام ميں تقسيم كرنا چاہيے : ايرانيوں كى جديد علوم سے آشنائي سے پہلے او ر اسكے بعد ØŒ قارجايہ حكومت ÙƒÛ’ پہلے دور ميں تاريخ نگارى صفويہ اور زنديہ ادوار كى مانند اسى سبك Ùˆ سياق اور ادبى نثر پر جارى رہى جبكہ دوسرے دور ميں ايرانيوں كى يورپ كى جديد تاريخ نگارى روش سے آشنائي ÙƒÛ’ بعد تاريخ نگارى كا آغاز ہوا ØŒ ايران كى روس سے شكست اور اس شكست ÙƒÛ’ اسباب اور ايرانيوں كا يورپى زبانوں سے ترجمہ ÙƒÛ’ كام كى طرف توجہ قاجار يہ دور ميں تاريخ نگارى ÙƒÛ’ دوسرے مرحلہ كا آغاز ہے  _

قاجاريہ دور كے پہلے مرحلہ ميں تاريخ نگارى كے اہم آثار ميں سے ميرزا فضل اللہ خاورى شيرازى كى تاريخ محمدى اور تاريخ ذوالقرنين، عبدالرزاق مفتون دنبلى كى ''مآثر سلطاني''، عضدالدولہ سلطان احمد ميرزا كى ''تاريخ عضدى ''، اور محمد تقى سپہر كى ''ناسخ التواريخ ''كا نام ليا جاسكتا ہے ،قاجاريہ كے دوسرے دور ميں يورپ كى زبانوں سے ترجمہ كى بناء پر يورپ كى تاريخ كے متعلق چند كتابوں ميںسے ايڈورڈگيبن كى كتاب'' تاريخ انحطاط و زوال امپراتورى روم'' كہ جو فارسى ميں ترجمہ ہوئي اسى طرح سرجان ملكم كى كتاب'' تاريخ ايران'' كہ جوانگريزى ميں تصنيف ہوئي اور بعد ميں فارسى ميں ترجمہ ہوئي_(1)

يہ تاريخ نگارى كے متعلق كچھ نكات تھے كہ جنكى طرف ہم نے اشارہ كيا ، اسلامى ادوار ميں تاريخ نگارى كے حوالے سے ايك اور قابل توجہ بحث يہ ہے كہ مورخين نے تاريخ نگارى كى مقبوليت كى بناء پر كتب كى تصنيف و تاليف ميں مختلف اقسام كے سبك و سياق كى پيروى كى اسى ليے ہم انكے تاريخى آثار كو چند اقسام ميںتقسيم كر سكتے ہيں جوكہ مندرجہ ذيل ہيں :

الف) روائي تاريخ نويسي: يہ مختلف موضوعات مثلا حديث ØŒ قصہ ØŒ مقتل ØŒ سيرت اور جنگوں ÙƒÛ’ احوال ميں تقسيم ہوتى ہے  _

ب) وقايع نويسى : واقعات اور رودادوںكوتاريخى نظم كے ساتھ تسلسل كى شكل ميں ايك جگہ پيش كرنا _

ج) ذيل نويسى اور مختصر نويسي: گذشتہ لوگوں كى تاريخى كتب پر ذيل و حاشيہ اور تكميلى نوٹ لكھنا_

د)عمومى تاريخ نويسي: تقويم اور سالوں كى ترتيب كے ساتھ اسلامى ممالك كے واقعات كو قومى و جغرافيائي عناصر كى مداخلت كے بغير لكھنا _

ہ) انساب كى روسے تاريخ نويسي: انساب ÙƒÛ’ سلسلہ اور شجرہ نسب كى آشنائي ÙƒÛ’ ساتھ تاريخى حوادث كا ذكر اور انكا ايسے قبائل اور طوائف سے ربط بيان كرنا جن كا پس منظر زمانہ جاہليت سے جا ملتا ہے  _



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 next