اسلامى تمدن ميں علوم كى پيش رفت



دوسرے دور يعنى پانچويں صدى ميں بڑے اور عظيم جغرافيہ دانوں كے ظہور كا ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ ان ميں سے اہم ترين ابوريحان بيرونى ہيں جناب بيرونى علم جغرافيہ كى ايك انتہائي فنى اور پيچيدہ ترين شاخ يعنى رياضياتى جغرافيہ كے مؤسس ہيں اس حوالے سے انكى كتاب كا نام '' تحديد نہايات الاماكن'' ہے علاوہ ازيں علم جغرافيا ميں البيرونى كے ہم عصر اور ہم رتبہ دانشور ابوعبداللہ بن عبدالعزيز بكرى قرطبى ہيںجو ہسپانيہ كے دانشور تھے انكى جغرافيہ كے حوالے سے كتاب كا نام '' معجم ما استعجم من اسماء البلاد والمواضع'' ہے_

تيسرے دور يعنى چھٹى سے دسويں صدى تك جس كا نام ہم نے اسلامى جغرافيہ ميں ''زمانہ تلفيق ''ركھا ہے كى كتب كو بطور كلى آٹھ اقسام ميں تقسيم كيا جاسكتاہے : 1_ كائنات كى توصيف 2_(cosmology) علم كائنات كے متون 3_ جغرافيائي تہذيبيں 4_ زيارت ناموں كى كتب 5_ سفرنامے 6_ جہاز رانى سے متعلق متون 7_ فلكياتى آثار 8_ مقامى جغرافيا ئي متون (1)

ان بہت سے آثار ميں سے كچھ جو مندرجہ بالا اقسام كے حوالے سے تاليف ہوئي مندرجہ ذيل ہيں : محمد بن احمد فرقى كى كائنات كى توصيف كے حوالے سے كتاب'' منتھى الادراك فى تقسيم الافلاك''، ياقوت حموى كى تہذيبوں كے حوالے سے ''معجم البلدان '' سفرناموں كے حوالے سے ''رحلہ ابن جير ''اور اس دور ميں اہم ترين جغرافيہ دان ابن بطوطہ ہيں كہ جو مشہور سفرنامہ كے مصنف ہيں يہ كتاب انكے مختلف اسلامى سرزمينوں ميں 25 سالہ سفر كا ثمرہ ہے_

اس دور كے آخر تك مقامى جغرافيہ پر عربى اور فارسى ميں بہت سى كتابيں لكھى گئيں كہ ان ميں فارسى كتب ميں سے ابن بلخى كى فارس نامہ ، حمد اللہ مستوفى كى ''نزھة القلوب''، محمد بن نجيب بكران كى ''جہان نامہ''، عبدالرزاق سمرقندى كى ''مطلع السعد'' اور امين احمد رازى كي'' ہفت اقليم ''قابل ذكر ہيں_

--------------------------

1)تشنر و احمد، سابقہ ماخذ_

ادب:

الف) عربى ادب

اسلام كى پيش رفت كے آغاز سے ہى عربى ادب خصوصاً شاعرى خاص توجہ كا مركز بن گئي اسلامى فتوحات عربى اشعار ميں اپنا جلوہ دكھانے لگيں اور عبداللہ بن رواحہ، كعب بن مالك، حسان بن ثابت و غيرہ جيسے برجستہ شعرا كے آنے سے آہستہ آہستہ قرآنى كلمات اور مضامين بھى عربى شاعرى ميں سمونے لگے حسان بن ثابت نے پيغمبر اكرم(ص) اور ان كے صحابہ كى دس سال تك مدح و ستائشے ميں قصايد كہے اورانہوں نے رسول اكرم(ص) كى وفات پر مرثيہ سرائي بھى كي_

قرآن مجيد ÙƒÛ’ بعد اولين اسلامى منثور آثار احاديث نبوى (ص) ہيں جن كى نثر روان اور سادہ ہے،خطبات ميں ''حجة الوداع'' سے امير المؤمنين (ع) ÙƒÛ’ گہر بار اقوال تك مسجع Ùˆ مقفع اور خوبصورت لفاظى سے بھر پور نثر ملتى ہے_ خطوط اور عہدنامے Ùˆ غيرہ جن ميں سياسى اور اجتماعى موضوعات پائے جاتے ہيں كو دينى متون كى حيثيت حاصل ہے  _پہلى صدى ہجرى ميں عربى نثر مذكورہ موضوعات تك ہى محدود رہى ہے_

كميت ( 126_ 60 قمري) ÙƒÛ’ عموماً شيعى اور خاص طور پر اشعار ہاشميات ايك پايدار مكتب كى شكل ميں آگئے اور روز بروز روحانى رنگ ان پر بڑھنے لگا _ اسكے اہم ترين دينى اشعار چار قصيدے ہيں كہ جو ہاشميات ÙƒÛ’ نام سے شہرت پاگئے  _ (1)

زمانہ كے گذرنے كے ساتھ ساتھ عربى ادبيات نے زيادہ سے زيادہ اسلامى تہذيب كو اپنے اندر جذب كيا اسطرح كہ بہت كم ہى كوئي خطبہ يا تحرير مل سكے گى كہ جسكا آغاز قرانى مناجات اور پيامبر اكرم (ص) كى مدح سے نہ ہو اسى طرح اخلاقى اقدار كے متعلق زمانہ جاہليت كے بہت سے كلمات نے بتدريج اپنے مفاہيم بدل لئے اور كلمات مثلا شجاعت، وفا، صداقت، صبر اور سخاوت و غيرہ قيمتى اور معنوى كلمات ميں تبديل ہوگئے_ (2)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 next