اسلامى تمدن ميں علوم كى پيش رفت



صفوى دورميں تصوف ايك نئے مرحلہ ميں داخل ہوا گذشتہ قرون ميں صوفى راہنماؤں كى ذمہ دارى يہ تھى كہ اپنے مريدوں كى راہنمائي اور تہذيب نفس كريں اسى ليے وہ دنيا كى كوئي پرواہ نہ كرتے تھے اور حق تك وصل اور كمال انسانى ميں سعادت حاصل كرنے كى كوشش ميں رہتے تھے_ نويں صدى ہجرى ميں صوفى مشايخ ميں سے ايك شيخ يعنى شيخ جنيد جو كہ شاہ اسماعيل كے جد تھے انہوں نے طاقت و قدرت اپنے ہاتھوں ميں لينے كيلئے صوفى گروہ اور اپنے مريدوں كو تيار كيا اور اسى ہدف كے پيش نظر صوفيوں كو كفار سے جہاد كيلئے مجبور كيا اور اپنے آپ كو سلطان جنيد كہلايا اس تاريخ كے بعد صوفى لوگ جنگى لباس ميں آگئے_

شاہ اسماعيل كے ابتدائي زمانہ حكومت ميں اسكے مريد اور پيروكار ايك مدت تك اسے صوفى كہتے رہے پھر صوفى اور قزلباش كا عنوان ايك دوسرے كيلئے لازم و ملزم ہوگيا _ شاہ تہماسب كے زمانہ ميں شيعوں اور قديم صوفى مريدوں كى اولاد كا ايك گروہ ديار بكر اور ايشيا ئے كوچك كے كچھ علاقوں سے ايران ميں داخل ہوا اور صوفى گروہ ميں شامل ہوگئے شاہ تہماسب كى وفات كے وقت قزوين ميں صوفيوں كى تعداد دس ہزار تك پہنچ گئي صوفى لوگ قزلباشوں كے ديگر گروہوں كى نسبت بادشاہ كے زيادہ قريب ہوتے تھے صوفيوں كے ہرگروہ كے سربراہ كو خليفہ كا نام ديا جاتا تھا اور تمام صوفيوں كے سربراہ كوخليفةالخلفاء كہا جاتا تھا (1)

شاہ عباس نے صوفيوں كو نظرانداز كرديا اوروہ تمام اہم امور جو انكے ہاتھوں ميں تھے ان سے لے ليے_ جو كچھ بھى صفويہ دور ميں صوفيوں كے حوالے سے لكھا گيا وہ فقط شيخ صفى الدين اور انكے جانشينوں كے پيروكاروں كے بارے ميں ہے صفوى حكومت كے وسطى زمانہ سے علماء شريعت كى قوت بڑھنے لگى اور اسى نسبت كے ساتھ صوفى لوگ زوال كا شكار ہونے لگے اور انكى مخالفت بڑھنے لگى يہانتك كہ انكے حوالے سے مرتد كافراور زنديق ہونے كى باتيں ہونے لگيں ، قاجارى دورميں اگر چہ صوفيوں كے كام كچھ زيادہ لوگوں كى توجہ كا مركز قرار نہ پائے ليكن حكومت كے استحكام سے معمولى آسايش حاصل ہونے كے ساتھ ساتھ حملہ اور

----------------------------

1)نور الدين مدرسى چہاردہي، سلسلہ ہاى صوفيہ ايران ، تہران_

اذيت سے محفوظ ہوگئے ليكن خانقاہيں پھر منظم اور پرجوش نہ رہيں(1)

فتوت، عربى زبان ميں ايسى صفت ہے كہ جو كلمہ '' فتي'' سے مشتق ہوئي ہے اور اس شخص كى صفت ہے كہ جس نے جوانى اور شباب ميں قدم ركھا ہويہ كتاب منتھى الارب ميںجوانمردى اور عوامى كے معنى ميں ذكر ہوئي ہے زمانہ جاہليت ميںيہ كلمہ دو مجازى معانى '' شجاعت اور سخاوت'' ميں استعمال ہوا كلمہ فتوت كے مشتقات قرآن مجيد كى سورتوں كہف،يوسف، نساء اورنور ميں ذكر ہوئے ہيں كہ دو يا تين مقامات سے ہٹ كر باقى تمام جگہوں پر جوانمرد يا جوانمردى كے علاوہ معانى ميں انكى تفسير ذكر ہوئي ہے (2) جنگ احد ميں پيغمبر اكرم نے حضرت على (ع) كو كفار سے دليرى كے ساتھ جنگ كرنے كى بناپر فتى كا لقب ديا اور فرمايا : لا فتى الا علي_ (3) اموى دور ميں فتوت كے معنى ميںوسعت پيدا ہوئي اور مردانگى اور مروت كے مختلف موضوعات اس كے معنى ميں داخل ہوئے ليكن اسكا اساسى ركن ايثار كہلايا كہ جو صوفيانہ فتوت كى سب سے پہلى خصوصيت تھى _

صدر اسلام ميں زاہدين اور سچے مسلمان جہاد اور راہ اسلام ميں جنگ كى مانند اس چيز كواپنى ذمہ دارى سمجھتے تھے  _ اس دور ÙƒÛ’ بعد صوفى حضرات خانقاہوں ميں بسيرا كرنے Ù„Ú¯Û’ اور جہاد اصغر سے جہاد اكبر يعنى نفس سے جنگ كى تعليم ميں مشغول ہوئے اسى ليے فتوت كہ جو شجاعت اور كرامت ÙƒÛ’ مترادف تھا اخلاق حسنہ اور ايثار ÙƒÛ’ معنى ميں تبديل ہوگيا اور صاحب فتوت كى تين علامات قرار پائيں: (1_) ايسى وفا كہ جسميں بد عہدى نہ ہو (2_) بغير توقع ÙƒÛ’ تعريف كرنا (3_) بغير مانگے دينا_ (4)

فتوت كى بھى تصوف كى مانند كوئي جامع تعريف موجود نہيں ہے_(5)

---------------------------



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 next