عورت ، گوہر ہستي



١ و ٢ سورہ احزاب/ ٣٥

اجتماعي فعاليت اورحجاب و حدود کي رعايت

البتہ ان فعاليت کي انجام دہي کيلئے کچھ اصول و قوانين کو معين کيا گياہے کہ يہ اصول و قوانين عورت اور اُسے فعاليت کي اجازت دينے سے مربوط نہيں ہيں بلکہ مرد وعورت کے باہمي اختلاط اور بے مہار ميل و جول اور رابطے سے مربوط ہے کہ جن کو اسلام بہت زيادہ خاص مسائل کي حيثيت سے ديکھتا ہے ۔ اسلام يہ کہتا ہے کہ مرد و عورت کو چاہيے کہ وہ معاشرتي زندگي کے تمام پہلووں اورتمام مقامات ، شاہراہوں، اداروں ، کارخانوں وغيرہ ميں اپنے درميان ايک حد وفاصلے کے قائل ہوں اور اِسي ليے مرد و عورت کے درميان حجاب اور اسي سے مربوط حدود و قوانين کو وضع کيا گيا ہے ۔ مرد و عورت کا باہمي اختلاط اورميل جول،مردوں کے آپس ميں يا خواتين کے آپس ميں ميل جو ل اوررابطے جيسا نہيں ہے لہٰذا ان تمام امور کا خيال رکھنا چاہيے، يعني مرد حضرات بھي ان قوانين اورحدود کا خيال رکھين اور خواتين بھي حجاب و حدود کي پابندي کريں ۔ اگر مرد و عورت کے باہمي رابطے اور ميل جول کي روش ميں اسلامي احکامات و حساسيت کو مدنظر رکھا جائے تو اجتماعي فعاليت کے ميدان کے وہ تمام کام جو مرد انجام دے سکتے ہيں خواتين بھي اگر جسماني قدرت اور شوق کي مالک ہوں اورفرصت ووقت رکھتي ہوں ، وہ کام انجام دے سکتي ہيں ۔

خواتين کو اعليٰ تعليم حاصل کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے ۔ بعض لوگ اس فکر کے حامل ہيں کہ لڑکيوں کو تعليم حاصل نہيں کرني چاہيے، يہ بہت بڑي غلطي ہے ۔ لڑکياں اُن تمام مضامين ميں تعليم حاصل کرسکتي ہيں جو اُن کيلئے سودمند اورمفيد ہيں اوراُنہيں شوق بھي ہے ۔ انساني معاشرے کو تعليم يافتہ لڑکيوں اورخواتين کي ضرورت ہے جيسا کہ وہ تعليم يافتہ لڑکوں اور مرد حضرات کا نيا زمند ہے ۔ البتہ تحصيل علم کے ماحول کو لڑکے اور لڑکي دونوں کيلئے صحيح و سالم اور پاکيزہ ہونا چاہيے ۔ ملکي جامعات کو چاہيے کہ وہ قوم کے بچوں بچيوں کو حصول تعليم کيلئے امن و سکون کا ماحول فراہم کريں ۔ کوچہ و بازار عزت و آبرو اور اخلاق کي حفاظت کے لحاظ سے قابل اطمئنان ہوں اور اس سلسلے ميں لڑکے اور لڑکي ميں کوئي فرق نہيں ہے ۔ اگر يہ امن وسکون حاصل ہوجائے تو کوچہ و بازار، جامعات اوراسکول و کالج ميں بھي امن ہوگا اورافراد کو اخلاقي اورفکري سا لميت بھي حاصل ہوجائے گي ۔ يہ اعلي عہديداروں اوروالدين کا کام ہے، تو ايسے ماحول ميں مسلمان لڑکے ، لڑکياں اور مرد وخواتين سب اپني فعاليت کو بطريق احسن انجام دے سکيں گے ۔

معاشرتي زندگي ميں حجاب کے فوائد

اس قسم کے بے مہار ميل جول اور روابط و تعلقات کا سدباب کرنے اور اخلاقي حدود کي حفاظت کيلئے اسلام نے خواتين کيلئے حجاب کو معين کياہے ۔ خود يہ حجاب خواتين کو ايک قسم کي حفاظت اور امن و سکون عطا کرتا ہے ۔ ايک باحجاب مسلمان عورت نہ صرف يہ کہ امن و سکون کا احساس کرتي ہے بلکہ مسلمان مرد بھي (آنکھوں اور شہوت کے گناہوں وغيرہ کي دوري کي وجہ سے ) راحت و آرام پاتے ہيں ۔جہاں بھي حجاب کو خواتين سے لے کر انہيں عرياني و فحاشي (اور بے پردگي) سے نزديک کيا جائے تو سب سے پہلے خود خواتين اور اِس کے بعد مردوں اور نوجوانوں سے (روحاني اور جسماني) آرام و سکون چھين ليا جائے گا۔ اسلام نے معاشرے کے ماحول کو پاکيزہ رکھنے اور (روحاني و جسماني) آرام وسکون کي حفاظت کيلئے حجاب کو واجب کيا ہے تاکہ خواتين معاشرے ميں باآساني اپنے امور کو انجام دے سکيں اور مرد اپني ذمہ داريوں اور فرائض سے عہدہ برآں ہوسکيں ۔ يہ حجاب ، اسلام کے شاندار احکامات ميں سے ايک حکم ہے اور اس کا ايک فائدہ يہي ہے کہ جسے آپ کي خدمت ميں عرض کيا۔ اس کے دوسرے بہت سے فوائد بھي ہيں کہ جن کي جانب بعد ميں اشارہ کريں گے ۔

معاشرتي زندگي ميں خواتين کي فعاليت کي اساسي شرط؛

عفت وپاکدامني کي حفاظت اورمردوں سے غير شرعي تعلقات سے دوري

 

پس اس دوسرے ميدان ميں کہ جو اجتماعي ،سياسي، علمي اور دوسري قسم کي فعاليت کا ميدان ہے،ايک مسلمان عورت کوايک مسلمان مرد کي طرح (آزادانہ فضا ميں)فعاليت کا حق حاصل ہے مگر زمانے کے تقاضوں کے ساتھ، يعني وہ معاشرتي زندگي ميں جس خلا اور جس ذمے داري کا اپنے دوش پر احساس کريں، اُنہيں انجام ديں ۔ مثلاً ايک لڑکي چاہتي ہے کہ طب کے شعبے ميں قدم رکھے اور ڈاکٹر بنے ، يا اقتصاد کے ميدان ميں اپني ماہرانہ اورپيشہ وارانہ صلاحيتوں کو بروئے کار لائے يا ديگر علمي مضامين ميں فعاليت انجام دے ،يا جامعہ ميں تدريس کرے، يا سياسي ميدان ميں مردوں کا بوجھ ہلکا کرے ياصاحب قلم يا ايڈيٹر بن کر ادب و معاشرے کي خدمت کرے تو اُس کيلئے تمام راستے کھلے ہيں ۔ مگر ايک شرط کے ساتھ! اور وہ يہ کہ وہ اپني عفت و پاکدامني کي حفاظت کرے اور مردو عورت کے درميان بے مہار ميل جول اور غير شرعي تعلقات سے کنارہ کشي اختيار کرے تو ايسے اسلامي معاشرے ميں مرد وعورت دونوں کيلئے راہ کھلي ہے ۔ ہمارے اس مطلب پر گواہ،وہ تمام اسلامي آثار ہيں کہ جو اس سلسلے ميں ہمارے پاس موجود ہيں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اسلامي احکام و فرائض ہيں کہ جو مرد وعورت کو يکساں طور پر اجتماعي ذمے دارياں عطاکرتے ہيں ۔ يہ جو حديث ميں فرمايا گيا ہے کہ ’’مَن اَصبَحَ لاَ يَھتَمُّ بِاُمُورِ المُسلِمِينَ فَلَيسَ بِمُسلِمٍ‘‘ ١ (جو اس حالت ميں صبح کرے کہ اُسے مسلمانوں کے حالات سے کوئي دلچسپي نہ ہوتو وہ مسلمان نہيں ہے) يہ حکم صرف مردوں کيلئے نہيں ہے بلکہ خواتين کو بھي چاہيے کہ مسلمانوں کے حالات ، دنيائے اسلام سميت پوري دنيا کے مسائل کي نسبت احساس ذمے داري کريں اور اُن پر توجہ ديں، چونکہ يہ ايک اسلامي وظيفہ ہے ۔

سورئہ احزاب کي آيت نمبر ٣٥ کے مطابق خواہ اسلام ہو ياايمان کي مضبوطي ، خداوند متعال کي اطاعت گزاري ہو يا خشوع اورفروتني ، راہ خدا ميں صدقہ دينا ہو يا روزے داري، صبر و استقامت ہو يا عزت و ناموس کي حفاظت يا پھر ذکر الٰہي ، ان تمام فضيلتوں ميں مرد و عورت سب برابر ہيں (يعني ہر کوئي اپني سعي اور کوشش کے نتيجے ميں بلند سے بلند مقام حاصل کرسکتا ہے)۔ اگر خواتين اسلامي حدود و قوانين کا احترام کريں تو معاشرتي اور اجتماعي فعاليت اُن کيلئے مکمل طور پر مباح، جائز اور مطلوب ہے ۔ خواتين اس شرط کے ساتھ معاشرے ميں اپنا بھرپور فعال کردار ادا کريں اور معاشرے ميں موجود اپني نصف طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے کو خوشبخت بنائيں ۔ جس وقت خواتين بھي معاشرے ميں مردوں کے شانہ بشانہ تحصيل علم ميں مشغول ہوں تو اس کے اجتماعي و انفرادي فوائد اس زمانے کي نسبت دُگنے ہوں گے کہ جب معاشرے ميں صرف مردوں کو تحصيل علم کا حق حاصل ہو۔ خواتين کي شعبہ تدريس سے وابستگي کے وقت معاشرے ميں معلمين کي تعداد اُس تعداد سے دو برابر ہوگي کہ جب صرف مرد تدريس کريں ۔ ملکي تعمير و ترقي ، تعمير نو،اقتصادي ميدان ميں آگے قدم بڑھانے، منصوبہ بندي کرنے، ايک ملک، شہر، گاوں اور گھريلو اورشخصي امور ميں مطالعہ کرنے جيسے اہم امور ميں مرد و عورت ميں کوئي فرق نہيں ہے ، سب ذمے دار ہيں اور سب کو يہ کام انجام دينے چاہئيں ۔

----------

١ کافي، جلد ٢، صفحہ ١٦٣

مسلمان بيٹيو! اور مومنہ خواتين ! يہ بھي آپ کي خدمت ميں عرض کروں کہ اہل يورپ جو اِس بات کا دعويٰ کرتے ہيں کہ يورپي معاشرے ميں عورت آزاد ہے تو اس کا کيا مطلب ہے؟يہي يورپي ہي تھے کہ جو نصف صدي قبل عورت کو اِس بات کي اجازت نہيں ديتے تھے کہ وہ اپنے ذاتي مال و ثروت ميں اپني مرضي کے مطابق تصرّف کرے! يعني ايک يورپي يا امريکي عورت ، پچاس ساٹھ سال قبل اگر لاکھوںروپے کي مالک بھي ہوتي تو اُسے يہ حق نہيں تھا کہ وہ اپني خوشي اور ارادے سے اُسے خرچ کرسکے ۔وہ ہر صورت ميں اپنے مال و دولت کو اپنے شوہر ،باپ يا بھائي کے اختيار ميں دے ديتي اور وہ لوگ اپنے ميل اور ارادے سے اِس عورت کي دولت کو خود اُس کيلئے يا اپنے ليے خرچ کرتے تھے! ليکن اسلام ميں ايسا ہرگز نہيں ہے ۔ اسلام ميں عورت اپني ثروت و دولت کي خود مالک ہے ، خواہ اُس کا شوہر راضي ہو يا نہ ہو، اِس ميں اس کے با پ کي مرضي شامل ہو يا نہ ہو، کوئي فرق نہيں ہے ۔ اسلامي قوانين کي رُو سے عورت اپنے مال و دولت اور جمع پونچي کو استعمال ميں لائے اور اِس ميں وہ کسي کے اذن و ارادے کي محتاج نہيں ہے ۔ خواتين کے اقتصادي استقلال و آزادي کي حمايت کرنے ميں دنيا، اسلام سے تيرہ صدياں عقب ہے ۔ اسلام نے اس امر کو تيرہ صدي قبل بيان کيا ہے ليکن يورپ ميں ابھي چاليس پچاس سال اور بعض ديگر ممالک ميں اس مدت سے بھي کم عرصہ ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے معاشرے کي عورت کو اِس بات کي اجازت دي ہے کہ وہ اپنے ذاتي مال و ثروت ميں تصرف کرے! اسلام اس جہت سے بھي بہت آگے ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 next