عورت ، گوہر ہستي



آپ ملاحظہ کيجئے کہ مغربي دنيا اوريورپي ممالک ميں حقوق نسواں کے دفاغ ميں ان بلند و بانگ نعروں اور اتنے مدعيوں کے باوجود جو تقريباًسب کے سب ہي جھوٹے ہيں، گزشتہ صدي کي ابتدائي دہائيوں تک خواتين کوووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہيں تھا ، و ہ نہ صرف يہ کہ اپني بات آزادانہ طورپر کہنے اورانتخاب کے حق سے محروم تھيں بلکہ انہيں مالکيت کے بھي حق سے محروم رکھا گيا تھا۔ يعني عورت اپني ميراث ميں ملنے والے مال و ثروت کي بھي مالک نہيں تھي، اُس کا تمام مال و دولت اُس کے شوہر کے اختيار ميں ہوتا تھا۔جبکہ اسلام ميں خواتين کے بيعت کرنے ، اُس کے حق مالکيت اورسياسي اوراجتماعي ميدانوں ميں اُس کے فعال اورموثر ترين کردار کو ثابت کيا گيا ہے ۔ ’’اِذَا جَائَکَ المُوْمِنَاتُ يُبَايِعنَکَ عَليٰ اَن لَا يُشرِکنَ بِاللّٰہِ‘‘ ٢ ۔خواتين پيغمبر اکرم ۰ کي خدمت ميں آتي تھيں اوربيعت کرتي تھيں ۔ پيغمبر اکرم۰ نے يہ نہيں فرمايا تھا کہ صرف مرد آکر بيعت کريں اور اِس بيعت کے نتيجے ميں وہ جس چيز کے بارے ميں اپنا حق رائے دہي استعمال کريں ، اظہار نظر کريں اورجس چيز کو بھي قبول کريں تو خواتين بھي مجبورہيں کہ اُن کي بات کومن وعن قبول کريں، نہيں ! انہوں نے کہا کہ خواتين بھي آکر بيعت کريں اور اس حکومت اور اِس اجتماعي اورسياسي نظام کوقبول کرنے ميں شرکت کريں ۔ اہل مغرب اس معاملے ميں اسلام سے تيرہ صدياں پيچھے ہيں اورآج بڑھ چڑھ کر يہ دعوے کررہے ہيں (کہ گويا يہ سب انہي کا ديا ہوا نظام ہے)۔ مالکيت کے مسئلے ميں بھي ايسا ہي ہے اور سياسي اوراجتماعي مسائل سے مربوط ديگر شعبوں ميں بھي يہي صورتحال ہے ۔

----------

١ مسلمان مرد ومسلمان عورتيں ، مومن مرد ، مومنہ عورتيں ، اطاعت گزارمرد اور اطاعت گزار عورتيں، سچے مرد اور سچي عورتيں ، صابر مرد اور صابر عورتيں ۔‘‘ سورئہ احزاب / ٣٥

٢ سورئہ ممتحنہ / ١٢۔ ’’اسے رسول ۰ جب آپ کے پاس مومنات بيعت کيلئے آئيں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسي کواُس کاشريک قرار نہيں ديں گي‘‘۔

د: چوتھي خدمت،حضرت زہرا کي سيرت، اسلام ميں خواتين کي سياسي اوراجتماعي کردار پر واضح ثبوت

حضرت زہرا علیھا السلام کي سيرت اورآپ کا اسوہ ہونا خواہ آپ کے بچپنے کا زمانہ ہو يا ہجرت پيغمبر۰ کے بعد مدينے ميں آپ کي اجتماعي مصروفيات کا زمانہ ہو،آپ اُن تمام حالات و واقعات ميں کہ جب آپ کے والد گرامي تمام سياسي اوراجتماعي واقعات و حوادث کا مرکز تھے،بہ نفس نفيس موجود تھيں ۔ يہ سب اسلامي نظام ميں ايک عورت کے فعال اورموثر اجتماعي کردار کي عکاسي کرتے ہيں ۔ البتہ حضرت زہرا علیھا السلام ان سب فضائل ميں سب سے بلند ترين مرتبے پر فائز ہيں ۔ صدراسلام ميں اور بھي بہت سي نامور خواتين تھيں جو اپني معرفت اور عقل وعلم کے لحاظ سے ايک خاص مقام کي حامل تھيں اور زندگي کے مختلف شعبوں سميت حتيٰ ميدان جنگ ميں شرکت کرتي تھيں ۔ کچھ خواتين تو اپني شجاعت وشہامت کے ساتھ ميدان جنگ ميں جاکر تلوار بھي چلاتي تھيں ۔ البتہ اسلام نے خواتين پر ان سب امور کوواجب نہيں کيا ہے اوراُن کے دوش سے يہ بار اٹھاليا ہے چونکہ يہ سب امور خواتين کي طبعيت ومزاج، جسماني ترکيب و ساخت اوراُن کے احساسات سے ميل نہيں کھاتے ۔

ھ: پانچويں خدمت،عورت، گھر ميں ايک پھول ہے!

اسلامي تعليمات کي روشني ميں مرد اِس بات کا پابند ہے کہ وہ عورت سے ايک پھول کي مانند سلوک کرے ۔ حديث بنوي ۰ ميں ہے کہ ’’اَلمَرآَۃُ رَيحَانَۃ?‘‘ عو رت ايک پھول ہے، يہ حقيقت سياسي ،اجتماعي اورتحصيل علم کے شعبے سے مربوط نہيں ہے بلکہ يہ گھر ميں ايک عورت کے حقيقي کردار کي عکاسي کرتي ہے ۔ ’’اَلمَرآَۃ ُ رَ يحَا نَۃ? وَ لَيسَت بِقَھرِمَانَۃ‘ ‘ ١ (عورت ايک پھول ہے کوئي طاقتور انسان يا پہلوان نہيں ہے)۔يہ خطا بين نگاہيں جو يہ گمان کرتي ہيں کہ عورت،گھريلو کام کاج کرنے کي پابند ہے، پيغمبر اکرم۰ نے اپنے اس بيان کے ذريعے ان تمام غلط اور باطل فکر و خيال کو يکسر نظرانداز کرديا ہے ۔

عورت ،ايک پھول کي مانند ہے کہ جس کي ہر طرح سے حفاظت کرني چاہيے ۔ اس جسمي و روحي لطافت و نرمي والے موجود کو اِن نگاہوں سے ديکھنا چاہيے ، يہ ہے اسلام کي نظر ۔ بالخصوص اِس حديث اور بالعموم تمام اسلامي تعليمات کي روشني ميں خواتين کي تمام زنانہ صفات و خصوصيات ،احساسات اوراميد و آرزووں کي حفاظت کي گئي ہے ۔ اس پر کوئي ايسي چيز تھونپي نہيں گئي ہے جو اُس کي زنانہ فطرت، نسوانہ عادات وصفات اورايک پھول کي مانند اُس کے نرم و لطيف احساسات اور مزاج سے ميل نہيں رکھتي ہو اور اُس کے ساتھ ساتھ اُس کے ايک عورت اورانسان ہونے کے باوجود اُس سے يہ مطلوب نہيں ہے کہ وہ مرد کي طرح سوچے،اس کي طرح کام اورجدوجہد کرے ۔ ليکن اِس کے ساتھ ساتھ علم، معرفت ، تقويٰ اور سياست کے ميدان کي راہ اس پر کھلي ہے، کسب ِعلم سميت سياسي اوراجتماعي ميدانوں ميں ترقي کرنے کيلئے اُسے شوق بھي دلايا گيا ہے ۔ اب مرد سے يہ کہا گيا ہے کہ اُسے عورت سے گھر ميں زبردستي کام کاج کرانے، اپني بات تھونپنے، زيادہ روي کرنے،جاہلانہ عادات واطوار کے ذريعے اپنے مرد (اور گھر کے سرپرست) ہونے کا لوہا منوانے اورغير قانوني (غير اسلامي) ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کا کوئي حق نہيں ہے ۔ يہ ہے اسلام کي نگاہ۔

اسلامي انقلاب ميں خواتين کا صبر واستقامت اورمعرفت



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 next