حقوق نسواں کے دفاع کيلئے لازمي اصول



اگر عورت مرد کي پشت پناہ ہو اورزندگي کے مختلف ميدان ہائے عمل ميں اُس کے شانہ بشانہ ،قدم بقدم اوراس کي ہمت و حوصلے کو بڑھانے والي ہو تو مرد کي قوت وطاقت کئي برابر ہوجاتي ہے ۔ يہ حکيمہ، عالمہ اور محدثہ خاتون، يہ خاتون کہ جو عالم ہائے غيب سے متصل تھي، يہ خاتون کہ فرشتے جس سے ہمکلامي کا شرف حاصل کرتے تھے ٣ اور يہ عظيم المرتبت ہستي کہ جس کا قلب ،علي ٴ و پيغمبر ۰ کے قلوب کي مانند ملک وملکوت کے عالموں کي نورانيت سے منور تھا،اپني تمام تر استعداد وصلاحيت کو بروئے کار لاتے ہوئے اور اپنے تمام تر اعليٰ درجات کے ساتھ تمام مراحل زندگي ميں جب تک زندہ رہي (اپنے شوہر، صحابي رسول ۰، اپنے امام وقت اور) امير المومنين ٴ کے پيچھے ايک بلند و بالا اور مضبوط پہاڑ کي مانند کھڑي رہي۔

آپ نے اپنے امام وقت اور اس کي ولايت کے دفاع کيلئے کسي بھي قسم کي قرباني سے دريغ نہيں کيا اور حضرت علي ٴکي حمايت ميں ايک بہت ہي فصيح و بليغ خطبہ ديا۔ علامہ مجلسي رضوان اللہ عليہ فرماتے ہيں کہ فصاحت و بلاغت کے علما اور دانشوروں نے اس خطبے کي فصاحت و بلاغت ،اعلي اوربے مثال کلمات،جملوں کي ترتيب،

------------

١ سورہ طہ/ ١۔٢ ٢ بحار الانوار جلد ٤٣ صفحہ ١٦

٣ حضرت استاد مولاناسيد آغا جعفر نقوي مرحوم اپنے استاد آيت اللہ شيخ محمد شريعت اصفہاني (آقائے شريعت) سے نقل فرماتے تھے کہ حديث کسا کي راوي حضرت زہرا ہيں اور يہ آپ کي عظمت وفضيلت ہے کہ آپ حضرت جبرئيل اور خدا کے درميان ہونے والي گفتگو کو خود سن کر نقل فرما رہي ہيں! (مترجم)

معاني اور اُس کے ظاہر و باطن کي خوبصورتي سے اپنے ہاتھوں کو کاٹ ڈالا ہے! يہ نکتہ بہت ہي عجيب ہے ۔علامہ مجلسي نے آئمہ عليہم السلام سے اتني کثير تعداد ميں روايات کو نقل کيا اور ہمارے ليے گرانبہا ذخيرہ چھوڑا ہے ليکن جب اس خطبے کے مقابل اپنے آپ کو پاتے ہيں تو اُن کا وجود فرط جذبات و احساسات اورخطبے کي عظمت سے لرز اٹھتا ہے! يہ بہت ہي عجيب خطبہ ہے اور اسے نہج البلاغہ کے خوبصورت اور فصيح وبليغ ترين خطبوں کا ہم وزن شمار کيا جاتا ہے ۔

ايسا خطبہ جو شديد ترين غم و اندوہ کے عالم ميں ، مسجد النبي۰ ميں سينکڑوں مردوں اور مسلمانوں کے سامنے ديا جاتا ہے ۔ يہ خطبہ بغير کسي تياري اورتفکر کے في البديع اس عظيم خاتون کي زبان پر جاري ہوتا ہے ۔ اس کا وہ بيانِ رسا،اس کي حکمتيں، عالم غيب سے اُس کا رابطہ ،وہ عظيم ترين مطالب، وہ معرفت الٰہي و شريعت کے گوہر ہائے بے مثل و نظير ، و ہ عمق و گہرائي ، وہ عظمت الٰہي کو بيان کرنے والے کلام کي رفعت وبلندي اور سب سے بڑھ کر وہ نوراني قلب کہ جس سے حکمت و معرفت کہ يہ چشمے جاري ہوئے ،وہ نوراني بيان کہ جس نے سب کو مبہوت کرديا اور وہ نوراني اور مبارک زبان کہ جس کے ذريعے اُس خاتون نے اپنے کلمات کو خدا کي راہ ميں بيان کيا ۔ اس تمام عظمت و فضيلت کے بارے ميں ہمارے سرمائے کي کيا حيثيت ہے کہ اگر ہم اُسے مکمل طور پر خدا کي راہ ميں خرچ کرديں! ہمارے سرمائے کيا حيثيت رکھتے ہيں؟ کيا ہمارا سرمايہ اُس عظيم سرمائے کہ جسے حضرت زہر علیھا السلام ، اُن کے شوہر ، اُن کے والد ماجد اور ان کي اولاد نے خد اکي راہ ميں خرچ کيا، قابل مقايسہ ہے؟!

ہمارا يہ مختصر علم، ہماري يہ ناقابل قوت بيان و زبان ،قليل سرمايہ ، مختصر پيمانے پر ہمارا اثر ونفوذ ، ہماري محدود صلاحيتيں اور نچلي سطح کي مختصر سي معرفت اُس عظيم اور بے مثل و نظير ذخيرے کے مقابلے ميں کہ جسے خداوند عالم نے حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کے ملکوتي و نوراني وجود ميں قرار ديا تھا، کس اہميت کا حامل ہے؟! ہمارے پاس ہے ہي کيا جو راہ خدا ميں بخل سے کام ليں؟ آج علي ٴ، فاطمہ عليہما السلام اور آئمہ کي راہ وہي امام خميني۲ کي راہ ہے ۔ اگر کسي نے اس (راہ اور اس راہ دکھانے والي شخصيت) کونہ جانا اور نہ سمجھا ہو تو اسے اپني بصيرت کے حصول کيلئے از سر نو جدوجہد کي ضرورت ہے ۔ ہمارے پاس جو کچھ بھي ہے، اسي راہ ميں خرچ کرنا چاہيے اور يہي وہ چيز ہے کہ جو اہل بيت ٴ سے ہمارے تعلق اور لگاو کو حقيقت کا رنگ بخشتي ہے١۔

---------

١ ١٥ دسمبر ١٩٩٢ ميں نوحہ خوان حضرات سے خطاب



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 next