حقوق نسواں کے دفاع کيلئے لازمي اصول



ہدف و مقصد صرف اسلامي ہو

جي ہاں! اسلامي معاشرے اور ہمارے سماج ميںخواتين کے حقوق کے اثبات ونفاذ کيلئے حتماً کوششيں کي جاني چاہئيں ليکن اسلامي افکار وتعليمات کے ساتھ اور اسلامي ہدف کے حصول کي خاطر۔ کچھ افراد يہ نہ کہيں کہ يہ کون سي (اسلامي) تحريک اور جدوجہد ہے،کيا ہمارے سماج ميں عورت کو کسي چيز کي کوئي کمي ہے؟ اگر بعض افراد ايسي فکر کے حامل ہوں تو يہ قابل افسوس بات ہے اور يہ صرف ظاہري صورت حال کو مدنظر رکھنے کے مترادف ہے ۔ عورت ہمارے معاشرے سميت دنيا کے تمام معاشروں ميں ظلم و ستم کا نشانہ بني ہے اور وہ ہميشہ اپنے حقوق کے لحاظ سے کمي کا شکار رہي ہے اور يہ سب اُس پر تھونپي جانے والي چيزوں کا نتيجہ ہے ۔ ليکن اُس کے حقوق کي ادائيگي ميں يہ کمي و کوتاہي بے بند وباري اورہر قسم کي قيد وشرط سے آزادي کي طرف سے ہونے والي کمي و کوتاہي نہيں ہے بلکہ يہ مختلف شعبہ ہائے زندگي اور علم و معرفت ، تربيت و اخلاق اور صلاحيتوں کو پروان چڑھانے کيلئے وقت و لمحات سے صحيح استفادہ نہ کرنے کي کمي اور کوتاہي ہے ۔ لہٰذا اِس کمي اور کوتاہي کو برطرف کرنے اور اس کا ازالہ کرنے کيلئے کوشش کرني چاہيے اور يہ وہي چيز ہے کہ جس پر اسلام بہت زيادہ تاکيد کرتا ہے ۔

اگر اسلامي معاشرہ، خواتين کي اسلامي آئيڈيل شخصيات يعني حضرت زہر علیھا السلام ، حضرت زينب علیھا السلام اور باعظمت خواتين جو دنيا اور تاريخ کو متاثر کرسکيں ،کے زير سايہ تربيت کرسکے تو اس وقت عورت اپنے حقيقي بلند مقام کو حاصل کرلے گي۔ اگر عورت معاشرے ميں علم و معرفت ،معنوي کمالات اور اخلاق کے عالي ترين درجات کو حاصل کرے جو خداوند عالم نے تمام انسانوں کيلئے خواہ وہ مرد ہوں يا عورت، ايک آئين کي صورت ميں مدنظر رکھا ہے تو نتيجے ميں اولاد کي بہترين تربيت ہوگي، گھر کا ماحول پہلے کي نسبت زيادہ محبّت و چاہت والا ہوگا، انساني معاشرے کيلئے پہلے کي نسبت ترقي کي راہيں زيادہ کھليں گي اور زندگي کي مشکلات زيادہ آساني سے حل ہوجائيں گي يعني مرد و عورت دونوں خوشبختي سے ہمکنار ہوں گے ۔ ان اہداف کے حصول کيلئے کوشش کرني چاہيے کيونکہ ہدف يہي ہے ۔ اس تمام تحريک و فعاليت کا مقصد صنف نازک کے مقابلے ميں صف آرائي اور مرد و عورت کے درميان عداوت و رقابت ايجاد کرنا نہيں ہے بلکہ ہدف يہ ہے کہ خواتين و لڑکياں وہي کام انجام ديںسکيں کہ جس کے مطابق مردوں نے جب بھي قدم اٹھايا وہ عظيم انسان بنے تو خواتين بھي اسي راہ کے ذريعے عظيم انسان بن سکيں ۔ يہ عين ممکن ہے اور اسلام ميں يہ بات تجربہ شدہ ہے ۔

 

آمنہ بنت الہديٰ ، ايک جليل القدرخاتون!

ميري بہنو!ميري بيٹيو اور اسلامي ملک کي خواتين ! آپ جان ليجئے کہ ہر زمانے ، ہر ماحول اور ہر گھرانے ميں عورت نے اس طرح کي تربيت کے ساتھ رشد کيا ہے اور اپني عظمت کو پايا ہے ۔ يہ بات صدراسلام کي خواتين ہي سے مخصوص نہيں تھي بلکہ کفر اور ظلم و تشدد کے سياہ ترين دور ميں بھي يہ سب ممکن ہے ۔ اگر ايک گھرانے نے اپني بيٹي کي اچھي طرح تربيت کي ہے تو يہ بيٹي ايک عظيم انسان بني ہے ۔ اس کي زندہ مثاليں ايران، ايران سے باہر اور خود ہمارے زمانے ميں موجود تھيں ۔ ہمارے اسي زمانے ميں (اسلامي انقلاب کي کاميابي سے قبل) ايک جوان، شجاع ،عالمہ ، مفکر اور ہنرمند خاتون ’’بنت الہديٰ‘‘ (آيت اللہ سيد محمد باقر شہيد ۲ کي خواہر) نے پوري تاريخ کو ہلا کر رکھ ديا، وہ مظلوم عراق ميں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے ميں کامياب ہوئيں اور درجہ شہادت کو حاصل کيا۔ بنت الہديٰ جيسي خاتون کي عظمت و شجاعت ، عظيم مردوں ميں سے کسي ايک سے بھي کم نہيں ہے ۔ اُن کي فعاليت ايک زنانہ فعاليت تھي اور ان کے برادر کي جدوجہد و فعاليت ايک مردانہ کوشش تھي ليکن دونوں کي جدوجہد و فعاليت دراصل کمال کے حصول اوران دونوں انسانوں کي ذات اور شخصيت کے جوہر و عظمت کي عکاسي کرتي تھي۔ اس قسم کي خواتين کي تربيت و پرورش کرني چاہيے ۔

خود ہمارے معاشرے ميں بھي ان جيسي خواتين کي تعداد بہت زيادہ ہے ۔ شاہي ظلم کے زمانے ميں کم و بيش ايسي مثا ليں ہمارے پاس موجود ہيں ۔ شاہي حکومت سے مقابلے اور اسلامي نظام کے قيام کے زمانے ميں بہت سي عظيم خواتين تھيں ۔ ان عظيم القدر خواتين نے اپنے دامن ميں شہدا کي پرورش کي ، انہوں نے اپنے شوہروں يا فرزندوں کو فداکار انسانوں کي صورت ميں معاشرے کو تحويل ديا تاکہ وہ اپنے وطن و انقلاب اور اپني قوم اور اُس کي عزت وآبرو کا دفاع کرسکيں ۔ يہ سب ان عظيم خواتين کا صلہ ہے اور يہ خواتين بڑے اور عظيم کاموں کو انجام دينے ميں کامياب ہوئي ہيں کہ جن کي ايک کثير تعداد سے ميں خود آشنا ہوں ۔

 

حقوق نسواں کي طرف مغرب کے مجددانہ رجوع کي وجہ

آج ان لوگوں کي کثير تعداد جو سينے پر حقوق نسواں کا تمغہ لگائے پھرتے ہيں دراصل وہ مغرب کي دي ہوئي آزادي اورہر قسم کي قيد و شرط سے آزاد زندگي کا تمغہ لگائے ہوئے ہيںوہ درحقيقت اہل مغرب کي تقليد کررہے ہيں ۔ يہي افراد ہيں جو کبھي قلم اٹھا کر کچھ لکھ ديتے ہيں ۔ انقلاب کي کاميابي کے اٹھارہ سال ١ بعدخواتين کي ظاہر ہونے والي عظمت و بزرگي ميں ان افراد کا کوئي کردار اور حصہ نہيں ہے ۔ ان افر اد کي کثير تعداد صرف اپني جيب کي فکر، درآمد کے حصول،اپنے راحت و آسائش اوراپني زينت و آرائش کے وسائل کي جمع آوري ميں مصروف تھي۔ ان افراد کو کوئي فضيلت وبزرگي حاصل نہيں ہے اور ان کا استعمال شدہ (مغربي) نسخہ غلط تھا۔ اگر خواتين کے بارے ميں مغربي نسخہ صحيح ہوتا تو مغرب مجبور نہ ہوتا کہ ستر، اسي ، سو سال بعد ايک دفعہ پھر حقوق زن کي تحريک کو از سر نو شروع کرے کہ ابھي کچھ سالوں اورکچھ دہائيوں قبل انہوں نے يہ تحريک شروع کي ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 next