زندگی نامہ جناب زھرا سلام اللہ علیھا



وہ اب قریب المرگ تھیں لیکن کینہ پرور لوگوں کے کینے، حسد، قسادتوں اور سنگدلیوں سے خصوصاً وہ لوگ جو منافقانہ انداز میں کہ دائرہ ایمان میں داخل ہوئے اور اسلام پر پشت سے خنجر گھونپنے والوں سے دل پارہ پارہ ہو چکا تھا۔

وہ زہرا جو صبر و بردباری کا مجسمہ ہیں آج موت کی آرزو کر رہی ہیں، اور لقاء اللہ کی امید لئے بیٹھی ہیں، انہوں نے اپنے باپ کی رحلت کے بعد ایک بھی خوشی کا لمحہ نہیں دیکھا، بلکہ جب سے پیغمبر اسلام(ص) بستر بیماری پر تھے، آنحضرت(ص) نے دیو سیرت انسان نما چہروں کو دیکھا تھا جن کے خیالات سے خیانت جھلک رہی تھی کہ وہ پیغمبر اسلام(ص) کی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے متعلق وصیتوں کو روندتے ہوئے اسلام کو اپنے صحیح راستے سے منحرف کردیں گے۔ ان کا دل اس بات سے بوجھل تھا کہ مسلمانوں نے اپنی بیٹی اور داماد کی حمایت میں آواز بلند نہیں کی، وہ بستر بیماری پر ایسی موت کے استقبال میں ہیں جو اپنے وقت کے امام اور شوہر اور بیٹیوں کی حمایت میں آرہی ہے۔ اور وہ ایسی موت کا استقبال کر رہی ہیں جو پیغمبر اسلام(ص) کی فریاد قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودة فی القربی کے مقابل میں مسلمان اپنے ربہر اور مقتداء کو کیسے جواب دتیے ہیں، ہاں وہ وراثت جو پیغمبر اپنے بدن کے ٹکڑے کے لئے چھوڑتے ہیں غصب کر لیتے ہیں، اور اہل بیت کے گھر کو آگ لگا دیتے ہیں اور حضر ت زہرا کو دروازے اور دیوار کے درمیان دبا دیتے ہیں، حتی کہ چھ ماہ کے محسن کی موت کا سبب بنتے ہیں، اس بے کسی کی حالت میں اپنی کنیز حضرت فضہ کو اپنی پناہ گاہ سمجھ کر کہتی ہیں اے فضہ مجھے اٹھاؤ میرا محسن شہید ہو گیا ہے۔

وہ بستر پر ایسی موت کے استقبال میں ہیں، جو ایسے لوگوں کی طرف سے آرہی تھی جنہوں نے اپنے دونوں کانوں سے پیغمبر کی زبانی سن رکھا تھا جس نے فاطمہ کو اذیت دی گویا اس نے مجھے اذیت دی اور حضرت زہرا کی ناراضگی گویا خدا کی ناراضگی ہے۔

وہ لوگ جن کی آنکھوں کو دنیا کی چند روزہ زندگی نے پر کر رکھا تھا اور دنیاوی مقام و منصب سے عشق نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھ، گویا اپنے رب کو بھی بھول گئے، وہ لوگ اپنے آپ کو مسلمانوں کے امور کا ناخدا سمجھ بیٹھے ہیں حقیقت میں ابھی تک کفر کی زنجیر ان کی گردونوں میں آویزاں ہے۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ دین الہی کو ایسے لوگوں کے حوالے کیا جائے جو کفر و بت کی پرستی کے گرداب میں غوطہ زن رہے ہوں، اور پتھروں اور لکڑی سے بنے بتوں کے سامنے سر بسجود رہے ہوں، اور ان کا اعمال نامہ ہر قسم کی نجاست اور غلط کاریوں سے پر ہو؟

کیا یہ ہو سکتا ہے کہ دین خدا کو ایسے لوگوں کے حوالے کردیا جائے جن کی پوری زندگی میں روشنی کا نشان تک نہ ہو؟ پردے کے پیچھے تو عورتیں بھی اپنے آپ کو دانا سمجھتی ہیں، جنگوں میں انتہائی ذلت کے ساتھ فرار کرتے تھے اور اپنے پیغمبر پر انتہائی ناروا کاموں کی وجہ سے الزام لگاتے تھے اور معارف قرآن سے ناواقف تھے گویا قرآن پڑھا ہی نہیں ہے۔

وہ ایسی موت کے استقبال میں ہیں کہ گویا اپنے شوہر نامدار اور اپنی پیاری اولاد سے جدائی کا وقت آن پہنچا ہے۔ جیسے ہی اٹھنے کی سکت ختم ہوتی نظر آئی، تو اپنے بستر بیماری سے اٹھتی ہیں اور گھر کے کام کاج میں مشغول ہوجاتی ہیں، اتنے میں امیر المومنین علی علیہ السلام گھر میں آتے ہیں اور کام کرنے کی وجہ پوچھتے ہیں۔ بی بی اپنا خواب نقل کردیتی ہیں۔

اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ بی بی تمام مدت سے دل میں رکھے ان تمام واقعات سے اپنے شوہر نامدار کو آگاہ کریں اور اپنی وصیتیں کریں۔ حضرت امام علی سب کو کمرے سے باہر بھیج دیتے ہیں اور خود اپنی شفیق رفیقہ حیات کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں۔ اے چچا کے بیٹے پوری زندگی میں مجھ سے جھوٹ اور خیات نہیں دیکھی ہو گی اور مزید یہ کہ اس عرصے میں کسی بھی وقت آپ کی مخالفت نہیں کی۔ حضرت نے فرمایا آپ اس سے کہیں زیادہ دانا، متقی اور عزت دار ہیں کہ میں آپ کو اپنی مخالفت کرنے پر سرزنش کروں۔ آپ سے جدائی میرے لئے بہت سخت اور دشوار ہو گی لیکن کیاکریں کہ موت سے کسی کو گریز نہیں۔ خدا کی قسم آپ کے جانے سے رسول خدا کی مصیبت دوبارہ زندہ ہوجائے گی۔

انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ یہ بہت بڑی مصیبت ہے۔ اس مصیبت میں کوئی مددگار نہیں ہے اور ایسا غم ہے جو اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ حضرت فاطمہ نے فرمایا، میں آپ کو وصیت کرتی ہوں کہ میرے جنازے میں جنہوں نے مجھ پر ظلم کیا شریک نہ ہوں۔ ہرگز ایسے لوگوں میں سے کوئی مجھ پر نماز جنازہ نہ پڑھے۔ مجھے آدھی رات میں جب آنکھیں بند ہوجائیں اور لوگ سو جائیں دفن کرنا۔

بعض روایات سے یوں استفادہ ہوتا ہے کہ وقت احتضار میں امیر المومنین گھر میں نہیں تھے۔ فقط حضرت اسماء گھر میں تھیں اور دنیا سے چلے جانے کے بعد امام حسن اور امام حسین علیھما السلام گھر میں آئے۔ اور حضرت اسماء سے کہتے ہیں کہ ہماری ماں پہلے تو اس وقت میں نہیں سوتی تھیں۔ وہ جواب دیتی ہیں اے فرزندان رسول خدا آپ کی ماں سوئی نہیں بلکہ دنیا سے جا چکی ہیں۔

یہ بات سنتے ہی بچوں نے فریاد بلندکی اور ماں کے جنازے پر گر پڑے۔ اور اپنی ماں سے گفتگو کی۔ اتنے میں حضرت اسماء بچوں سے امیر المومنین کو مسجد سے بلانے کے لئے کہتی ہیں۔ حضرت امام علی اپنی وفادار رفیقہ حیات کے پاس بیٹھ کر کہتے ہیں کہ آج کے بعد کس سے دل کی بات کروں گا؟ پیغمبر اسلام(ص) کی وفات کی طرح آج پھر مدینہ کے لوگوں نے رونے اور بینوں کی آوازیں سنیں، لوگ اس انتظار مییں تھے کہ تشیع جنازہ میں شریک ہوکر نماز جنازہ پڑھیں گے۔ لیکن امیر المومنین نے تشیع جنازہ میں تاخیر کردی تاکہ وصیت کے مطابق عمل کیا جائے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next