زندگی نامہ جناب زھرا سلام اللہ علیھا



شیعہ روایت میں اس طرح ہے کہ سیدہ بعثت سے پانچ یا دو سال بعد پیدا ہوئیں۔ جبکہ اہل سنت کی روایات بعثت سے پانچ سال پہلے والے قول کی تائید کرتی ہیں۔

حقیقی بات یہ ہے کہ بزرگ و عظیم المرتبت شخصیات کی تاریخ ولادت یا شہادت یا رحلت اتنی اہم نہیں ہوتی بلکہ جو چیز ایسے برجستہ اور عظیم المرتبت شخصیات کی زندگیوں سے آئندہ نسلوں کیلئے قابل توجہ ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ جان لیں کہ وہ بے نظیر لوگ کون تھے، کیسے زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے دور میں اور آئندہ کیلئے معاشرے میں کیا اثر چھوڑ گئے ہیں۔

حضرت فاطمۃ الزہرا کا بچپن

حضرت فاطمہ علیھا السلام نے اپنی انتہائی شفیق ماں حضرت خدیجہ علیھا السلام کی گود میں پرورش پائی اورپاکیزہ دودھ جو شرافت، نجابت، بردبادی اور توحید پرستی جیسے صاف شفاف چشمہ اور مرکز سے ملا ہوا تھا سیراب ہوتی رہیں۔ جناب سیدہ کی شیرخوارگی کے ایام اور بچپن صدر اسلام کے انتہائی خطرناک اور بحرانی ایام پر محیط ہیں۔ زندگی کا کچھ حصہ شعب ابی طالب میں گذرا، تقریباً تین سال تک آپ نے سوائے شعب ابی طالب کے کچھ نہیں دیکھا۔

جب آپ اور بنی ہاشم شعب ابی طالب کی تنگ گھاٹی سے نجات پاتے ہیں اور اپنے گھروں کو واپس لوٹتے ہیں، تو زندگی کے مناظر اور آزادی جیسی نعمتیں آپ کیلئے خوش کن تھیں لیکن افسوس کہ خوشی کے ایام دوام پیدا نہ کرسکے، کیونکہ اپنی انتہائی شفیق ماں حضرت خدیجہ کے سایہ سے محروم ہوجاتی ہیں، جس سے ان کی حساس روح افسردہ ہوجاتی ہے۔ ماں کی شفقت سے محرومی کے بعد پیغمبر اسلام(ص) کی محبت آپ سے بڑھ گی۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ رسول خدا جب تک آپ کو پیار نہیں کرلیتے سوتے نہیں تھے۔ اس قسم کے حادثات اور مسلسل مشکلات ممتاز اور عظیم لوگوں کیلئے فقط روح کی تقویت کا سبب ہوتے ہیں بلکہ ان کی اندرونی استعداد اور پوشیدہ صلاحیتوں کو ابھارتے ہیں اور مشکلات کے مقابلے میں پائیداری کا سبب بنتے ہیں۔

جی ہاں حضرت فاطمہ کی زندگی میں موجود بحرانوں اور سختیوں نے نہ فقط ان کی روح کو متاثر کیا بلکہ ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشی، اور ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے میں مدد دی۔

آپ کے وجود اقدس میں انسانیت، جوانمردی، عفت و بزرگواری جیسے خواص جو کسی خاتون میں ممکن نہیں ہو سکتے تھے موجود تھے، وہ خود فخر و مباہات کرتے ہوئے کہتی کہ میں نے مدرسہ نبوت میں تربیت پائی ہے اور رسالت کی درس گاہ میں کمال پایا ہے۔ اس گھر میں جو فرشتوں کے اترنے کا محل اور وحی کے نزول کی جگہ تھی پرورش پائی، اور اپنے باپ اور شوہر جو مجسمہ انسان کامل تھے ان سے استفادہ کیا۔ حضرت ابو بکر سے گفتگو کے دوران جس انداز میں آیات قرآنی سے استفادہ کیا یہ ایک حقیقت کو ظاہر کررہی ہے کہ آپ قرآن کی آیات پر مکمل عبور رکھتیں تھیں، ایسے کیونکر نہ ہو جبکہ رسول خدا کی زبان اقدس سے قرآن سنتی تھیں، اور پیغمبر اور علی کے وجود میں اس کی تجلیاں دیکھتی تھیں اپنی روح کو قرآن کے مفاہیم کے ساتھ منطبق کرتے ہوئے احکام اور اپنے وظائف اس سے استخراج کرتی تھیں کیونکہ آپ بھی اہل بیت کی طرح فصاحت و بلاغت سے بہرہ مند تھیں۔ اپنی گفتار کی قوت سے دلوں پر حکمرانی کرتی تھیں، زورِ بیان سے جانوں کو اپنے اختیار میں لے لیتی تھیں اور بہترین انداز میں بات کرتی تھیں، یہ ساری باتیں ابو بکر سے فدک اور امر خلافت میں بحث کرتے ہوئے واضح کی تھیں۔

جناب فاطمۃ الزہرا کی شادی

جب سے آسمان رسالت سے خورشید رخ "زہرا" نمودار ہوا اور پھر جلالت و عظمت کے افق پر کامل ہوا، تو تمام لوگوں کی فکریں اور نگاہیں آپ کی طرف تھیں۔

اصحاب پیغمبر چونکہ آپ کی اہمیت سے واقف تھے اور جانتے تھے اس لئے دروازہ رسالت پر شادی کے پیغام بھیجے، لیکن پیغمبر ہر بار ٹال جاتے تھے۔کفو کی تشخیص کوئی معمولی کام نہیں بلکہ انسان اس کو سمجھنے سے عاجز ہے فقط وہ ذات جو لوگوں کے ضمیروں سے آگاہ ہے جانتا ہے کہ کون کس کا کفو ہے اور موجودات عالم میں کون کس کے برابر ہے۔ اس حوالے سے حضرت فاطمہ کا انتخاب امیر المومنین کے لئے ایک الٰہی انتخاب ہے، زہرا کیلئے شوہر اور کفو خود ذات احدیث نے چنا، اس آسمانی نکاح کاخطبہ خود پروردگار نے پڑھا، اور اس ازدواج مقدس کے گواہ ذات پیغمبر گرامی اور حضرت جبرئیل اور خود فرشتے ہیں۔

آپ کے مقام و مرتبہ سے جہالت اور ناواقفی کی وجہ سے عمر اور ابوبکر جیسے لوگ رشتے کے پیغام بھیجتے تھے۔ لیکن پیغمبر اسلام(ص) سب کے جواب میں یوں فرماتے کہ فاطمہ کنیز خدا ہے۔ لہذا میں اس میں کسی قسم کا اختیار نہیں رکھتا، تنہا خداوند قدوس جانتا ہے کہ زہرا کیلئے کفو اور ہمسر کون ہے۔ چھٹے امام فرماتے ہیں۔ لو لا ان امیر المومنین تروجھا لھا کاان لہا کفو الی یوم القیامۃ علی وجہ الار ض ادم فمن دونہ

ترجمہ: اگر حضرت علی علیہ السلام حضرت زہرا سے عقد نہ کرتے تو حضرت آدم سے لے کر قیامت تک آنحضرت(ص)(ص) کے لئے کفو پیدا نہ ہوتا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next