پیغمبر اسلام(ص) کا جوانوں کے ساتھ سلوک (دوسرا حصه)



قابل توجہ بات یہ ہے کہ زندانوں میں موجود ٨٠ فیصدی مجرم ،نوجوان ہیں کہ انہوں نے اپنے اعترافات میں کہا ہے کہ ''بچپن میں اپنے باپ یا دوسرے مردوں کے ذریعہ جنسی ہوس رانی کا شکار ہوئے ہیں ۔''(روزنامہ اطلاعات شمار:١١٧٦٥)

جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے وہ ان ہزار ہا جرائم میں سے ایک نمونہ تھا جواس سلسلہ میں روز ناموں ،کتا بوں اور رسالوں میں لکھے جاتے ہیں ۔اس کی وجہ سے انسان بے شماربیماریوں میں مبتلا ہورہاہے اور آج یہ انسانی معاشرے کی ایک بنیادی مشکل ہے ۔ یہاں پر یہ کہنا چاہئے ،کہ تمام روحانی بیماریوں کا علاج صرف دین و مذہب اور دستورات اسلام ہے ،لیکن اکثر لوگ اس علاج سے محروم ہیں ۔

 

پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم)اور نوجوان نسل

نوجوان،اپنے ضمیر اور اخلاق کے الہام سے اپنی فطرت وطینت کی بنیاد پر، حقیقت،تقدس،پاکیزگی اور سچائی کا عاشق و دلدادہ ہے ۔اس لحاظ سے ایمان داری اور نیکی کی نسبت مخصوص حساسیت رکھتا ہے ،اس سے لذت محسوس کرتا ہے اور خوش ہو تا ہے اور ہمیشہ پاکیزگی اور الہٰی اقدار کی فکر میں رہتا ہے اور سعی وکوشش کرتا ہے کہ اس کا قول و فعل اچھائی اور حقیقی قدروں پر استوار ہو ۔

نوجوان ،نہ صرف دوسروں کی برائی پر اظہار افسوس کرتا ہے اور لوگوں کے برے اور نا پاک برتائو سے رنجیدہ ہو تا ہے ،بلکہ وہ ہمیشہ اس فکر میں رہتا ہے کہ ایک ایسی توا نائی اور اقتدار کو حاصل کرے،جس سے پلیدیوں کو دور اور آلود گیوں کاازالہ کر سکے ۔

جب رسول خدا(صلی الله علیه و آله وسلم)نے شہر مکہ میں اپنی دعوت کا کھلم کھلا اعلان کیا اور آپ(صلی الله علیه و آله وسلم) کو حکم ملا کہ لوگوں کو آشکارا طور پر اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں توسب سے پہلے آپ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے گر ویدہ ہونے والے نوجوان تھے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ نوجوانوں کا یہ گروہ مکہ کے معروف قبیلہ قریش کے اعلیٰ طبقہ اور دولت مند خاندانوں کے لڑکے لڑ کیاں تھیں ۔

بیشک،با نشاط جوانوں نے ،جو پسماندہ عرب قوم کی افسوس ناک حالت سے تنگ آچکے تھے اور پتھروں اور لکڑیوں کے بتوں کی پرستش اور زمانہ جاہلیت کے فرسودہ توہمات پر مبنی رسم ورواج سے احساس کمتری کے شکار تھے،جب پیغمبر اسلام(صلی الله علیه و آله وسلم)کی روح افزا،ولولہ انگیز اور انسا نوں کو نجات دینے والی فریاد سنی ،تو دل وجان سے آپ (صلی الله علیه و آله وسلم)کی دعوت کو قبول کیا ۔

پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم)کے گرانقدر بیانات تمام طبقات کے لئے موثر تھے،لیکن جوانوں کا طبقہ دوسرے طبقات کی نسبت زیادہ دلچسپی کا اظہار کرتا تھا،کیونکہ آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کے بیانات ان کے اندرونی افکار کے جواب اور ان کی روحانی غذا شمار ہوتے تھے ۔

جب آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) کے خصوصی نمائندہ مصعب بن عمیر،قرآن مجیدکی تعلیم دینے اوراسلامی ودینی معارف کی نشر واشاعت کے لئے مدینہ آئے توجوانوں نے بڑوں کی نسبت ان کی دعوت کو زیادہ قبول کیا اور دینی احکام کو سیکھنے کے لئے زیادہ دلچسپی کا اظہار کیا ۔ مصعب مدینہ میں اسعد بن زراہ کے گھر میں سکونت پذیر تھے اور دن میں قبائل خزرج کے اجتماع میں جاتے تھے اور انھیں دین اسلام کی دعوت دیتے تھے اوراکثر جوان ان کی دعوت کو قبول کرتے تھے ۔(١٢٧)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 next