پیغمبر اسلام(ص) کا جوانوں کے ساتھ سلوک (دوسرا حصه)



ترقی یافتہ ممالک میں، نسل جوان کے احترام و شائستگی اور ان کی عظیم توانائیوں سے استفادہ کرنے کے موضوع پر مکمل طور پر توجہ کی جاتی ہے اور مختلف امور سے متعلق اہم اور حساس ملکی عہدے انھیں سونپے جاتے ہیں اور لائق جوانوں سے قوم و ملت کے فائدہ کے لئے استفادہ کیا جاتا ہے ۔

پیغمبر اسلام(صلی الله علیه و آله وسلم)نے بھی آج سے چودہ سو سال پہلے اس اجتماعی مسئلہ کی طرف خاص توجہ کی تھی اور اپنے چھوٹے اورنئے ملک میں حساس اور اہم ملکی امور میں جوانوں سے استفادہ کرتے تھے ۔ مختلف مواقع پر ملک کے اہم عہدے شائستہ اور قابل جوانوں کو سو پنتے تھے اور اپنے قول و فعل کے ذریعہ کھلم کھلا ان کی حمایت فرماتے تھے ۔

جہل و نادانی اور تعصب سے بھرے ایک ماحول میں یہ کام آسانی کے ساتھ قابل قبول نہیں تھا ۔ کیونکہ سن رسیدہ لوگ، جوانوں کی بات ماننے اور ان کی پیروی کرنے کے لئے آمادہ نہیں تھے ۔ جب پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم)کسی جوان کو منتخب کرکے اسے ایک اہم اور بڑے

عہدہ پر فائز کرتے تھے، تو بوڑھے اور سن رسیدہ افراد ناراض ہوتے تھے اور آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)سے کھل کر شکوہ کرتے تھے ۔ اس حقیقت کو پہلی دعوت ذو العشیرہ میں بخوبی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔(١٢٩)

رسول خدا(صلی الله علیه و آله وسلم)اپنی اس تحریک کو استحکام بخشنے کے لئے مسلسل تاکید کرتے تھے اورنامناسب، تعصب بھرے اور جاہلانہ افکار کاڈٹ کر مقابلہ کرتے تھے اور آخر کار اپنے حکیمانہ بیانات اور بے شمارنصیحتوں سے لوگوں کو مطمئن کرتے تھے یا انھیں خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ لوگوں کے سامنے منبر سے اپنے بیانات کے ذریعہ جوانوں کی تعریف کرتے تھے اور ان کی حمایت کا اعلان کرتے تھے اور اس طرح انھیں ملک کے اونچے اور اہم عہدوں پر فائز کرتے تھے ۔

یہ بیان کر دیناضروری ہے کہ جوانوں کو کسی عہدہ کے لئے منتخب کرنے کی بنیادی شرط ان کی صلاحیت اور شائستگی ہے ۔ آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کے بیانات کی تحقیق سے یہ حقیقت بخوبی واضح ہوجاتی ہے ۔کہ جن جوانوں کو پیغمبر اسلام(صلی الله علیه و آله وسلم)نے منتحب کرکے مملکت کے اہم عہدوں پرفائز کیا تھا، وہ عقل ، فکر ، ہوشیاری، ایمان ، اخلاق اور حکمت عملی کے لحاظ سے شائستہ اور لائق تھے ۔

اب ہم ایسے جوانوں کے چند نمونے پیش کرتے ہیں، جنھیں پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم)نے ملک کے اجرائی عہدوں پر فائز کیا تھا، تا کہ جوانوں کے حق کی تعیین میں کوئی غلطی سرزد نہ

١١٢٩۔ تاریخ طبری ج ٢، ص ٦٢۔ الکامل ، ج ٢، ص ٤٠۔ مسند احمد ، ج ١، ص ١١١۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ، ج ٣، ص ٢١٠

ہواور ہم اپنے بے جافیصلوں سے افراط و تفریط کے شکار نہ ہوں اور خود جوان او رعوام بھی اس سلسلہ میں غلطی کا شکار نہ ہو ں، کیونکہ جوانوں کو انتخاب کرنے کا قابل قدر معیار ، ایمان اور معنوی اقدار ہے ۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 next