پیغمبر اسلام(ص) کا جوانوں کے ساتھ سلوک (دوسرا حصه)



حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

'' جوان کی نادانی کا عذر قابل قبول ہے ،کیونکہ اس کا علم ودانش محدود اور نا پختہ ہو تا ہے ۔(١٦٧)''

اس لئے نا پختگی اور نادانی جوا نوں کے خصو صیات میں سے ایک ہے کہ تربیت کے وقت اس کا خاص خیال رکھنا چاہئے ۔یہی وجہ ہے کہ خدا وند متعال نے اپنے تمام بندوں کے لئے توبہ کا راستہ کھلا رکھا ہے اور سب سے زیادہ جوانوں کو توبہ کرنے کی تاکید فرمائی ہے کیونکہ ممکن ہے جوانی کی جہالت اور جنون ان کی بہت سی غلطیوں اور خطائوں کا سبب ہوں اور نجات کا تنہا راستہ توبہ ،خدا کی طرف راغب ہو نا اور دینی احکام کی پیروی کرنا ہے ۔

جوان گوناگوں مسائل کے انتخاب میں مستقل مزاج نہیں ہوتے اور ان کی رائے ہمیشہ بدلتی رہتی ہے ۔ان کا رجحان ہمیشہ بدلتا رہتا ہے اور ہر لمحہ مختلف خطرات سے دوچار ہوتے رہتے ہیں ۔اس لئے دشمن بھی جوانوں کی اس کمزوری سے ہمیشہ فائدے اٹھاتے ہیں ۔

جوانوں کے دوسرے خصوصیات ،ان کی طاقت،توانائی،نشاط،تحرک اور سر گرمی ہے کہ اگر ان سے صحیح استفادہ نہ کیا جائے تو وہ ایسی بہت سی غلطیوں کے شکار ہو سکتے ہیں کہ جن کی تلافی ناممکن ہے ۔اس لئے جوانوں کی اس طاقت اور توانائی کو علم،تجربہ اور فکر سے ہم آہنگ کیا جانا چاہئے تاکہ مطلوب اور قابل قدر نتیجہ حاصل ہو سکے ۔

علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''میں عمر رسیدہ لوگوں کی واضح اور روشن فکر کو جوانوں کی طاقت اور توانائی سے زیادہ پسند کرتا ہوں ۔(١٦٨)''

..............

١٦٦۔تحف العقول ص٢٧٧

١٦٧۔غرر الحکم ص٣٧٢



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 next