پیغمبر اسلام(ص) کا جوانوں کے ساتھ سلوک (دوسرا حصه)



٢۔اس نے اپنی جوانی کس طرح اورکہاں گزاری ؟

پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم)کے اس ارشاد سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام نے جوانی کی طاقتوں کو کس قدر اہمیت دی اور توجہ دی ہے،کیونکہ اس گرانقدر سرمایہ کو ضائع کرنے کے سلسلہ میں قیامت کے دن خاص طور پر سوال کیا جائے گا ۔

جی ہاں،اخلاقی اقدار اور انسانی صفات کے مالک جوانوں کی قدر ومنزلت، پھولوں کی ایک شاخ کی مانند ہے جو عطر وخوشبو سے لبریز ہے،تازگی کے علاوہ ،اس کی فطری خوبصورتی اور حسن و جمال بھی معطر ہے ۔لیکن اگر جوانی الہٰی اقدارکی مالک نہ ہو،تو اس کی مثال کانٹوں کی سی ہے جن سے ہرگزکوئی محبت نہیں کرتا ۔

رسول خدا (صلی الله علیه و آله وسلم)نے فرمایا:

''با ایمان شخص کے لئے ضروری ہے کہ اپنی طاقت سے اپنے لئے استفادہ کرے اور دنیا سے اپنی آخرت کے لئے، جوانی سے بڑھاپے سے پہلے اور زندگی سے موت سے پہلے استفادہ کرے ۔(١٢٠)

آنحضرت (صلی الله علیه و آله وسلم)نے مزید فرمایا:

''فرشتہ الہٰی،ہر شب بیس سالہ جوانوں سے مخاطب ہوکر فریاد کر تا ہے کہ سعی وکوشش کرواور کمال وسعادت تک پہنچنے کے لئے کو شش کرو۔(١٢١)''

اس لئے،جوانی کا دور،انفرادی مسئولیت ،بیداری،ہوش میں آنے اور عمل وکوشش کا دور ہے اور جو لوگ اس الہٰی طاقت سے استفادہ نہیں کریں گے،انھیں سر زنش کی جائے گی ۔

خدا وند متعال فرماتا ہے :

(ولم نعمّرکم مایتذکّر فیہ من تذکّر)(فاطر٣٧)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 next