پیغمبر اسلام(ص) کا جوانوں کے ساتھ سلوک (دوسرا حصه)



مذہب اور دین سے لگاؤانسان کے فطری رجحانات میں سے ایک ہے،جو بالغ ہونے کے ساتھ جوانوں میں دوسرے فطری میلا نات کے مانند پیدا ہوتا ہے اور نتیجہ میں انھیں اس سلسلہ میں سعی وکوشش کرنے پر ابھارتا ہے ۔

فطری طور پر جوان مذہبی مسائل کو سمجھنے اور انھیں درک کرنے کی کافی دلچسپی رکھتے ہیں ۔اسی لئے وہ دین سے مربوط بیانات کو انتہائی دلچسپی اور رغبت سے سنتے ہیں،یہ بہت سی عظیم شخصیتوں اور تربیت کے ماہرین کا نظریہ ہے ۔جان بی کایزل کہتا ہے:

''اب تک کئے جا نے والے تجربات کے مطابق ،کلی طور پر مذہبی عقیدہ بارہ سال کی عمر میں شروع ہوتا ہے ۔(١٢٣)''

اکثرماہر دانشور اس بات کے قائل ہیں کہ تقریباً بارہ سال کی عمر میں ،یعنی فطری طور پر نوجوانی کے آغاز میں ،انسان کے اندر ایک اور رجحان پیداہوتا ہے اور یہ وہی مذہب سے اس کا عشق ومحبت ہے ۔یہ میلان انسان کے دوسرے فطری میلانات اور دلچسپیوں کے ساتھ ترقی کرتا ہے اورمسلسل بڑھتا جا رہا ہے یہاں تک کہ سولہ سال کی عمر میں اپنے کمال تک ١پہنچتا ہے ،اس کے نتیجہ میں نوجوان دوسروں کی برائیوں اور بد اخلاقیوں سے رنجیدہ ہوتے ہیں اور دوسروں کی گندی باتوں اور انحرا فات پر افسوس کرتے ہیں اور پوری دنیا میں اخلاقی فضائل کے پھیلنے کی مسلسل آرزو کرتے ہیں اور سعی وکوشش کرتے ہیں ،کہ دنیا کے تمام لوگ صحیح اور حقیقی اقدار کی راہ میں قدم بڑھا ئیں ۔

 

نوجوانوں میں دینی تعلیمات کے اثرات

دینی تعلیم اور ایمانی واخلاقی صفات کی تربیت نوجوانوں میں دو بڑے اثرات پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں:

١۔جوانوں کے دینی اور مذہبی جذبات،جو ان کے فطری خواہشات میں سے ایک ہے،وہ اسی کے ذریعہ پو رے ہوتے ہیں ۔

٢۔مذہب و عقیدہ کی طاقت ،نوجوانوں کے دوسرے فطری اور جبلّتی رجحانات قابو رکھتی ہے اور ان کو انتہا پسندی اور سر کشی سے روکتی ہے ۔جس کے نتیجہ میں وہ ناکامی ،پستی اور بد بختی سے محفوظ رہے ہیں ۔

قابل ذکربات یہ ہے کہ اسلام نے نسل جوان کی تربیت کے ایک بنیادی اصول،یعنی تربیتی ،ایمانی اور منصوبوں کو جوانوں کی فطری خواہشات اورتقاضوں کے مطابق پیش کیا ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 next