خدا کی معرفت عقل و فطرت کی روشنی میں



مذکورہ استدلال کا خلاصہ :

یہ عالم؛ جس میں جمادات، نباتات اور دیگر موجودات شامل ھیں، یہ حادث ھے یعنی پھلے نھیں تھا بعد میں موجود هوا جیسا کہ ان تمام میں واضح طور پر آثار وجود پائے جاتے ھیں کہ ان چیزوں میں کمی وزیادتی طول وقصر موجود ھے اور ایک حال سے دوسرے حال میں بدلتے رہتے ھیں یا اسی طرح کے دوسرے آثار جن سے ان کے حادث هونے کا پتہ چلتا ھے کہ یہ چیزیں عدم سے وجود میں آئی ھیں۔

اور جب اس کائنات کی تمام چیزوں میں تغییر وتبدیلی پائی جاتی ھے اور ھمارے افعال وحرکات کے ذریعہ ان چیزوں میں تبدیلی آتی رہتی ھے اس طرح ھمارے افعال بھی خود بخود نھیں هوتے بلکہ ھم ھیں جو ان کو انجام دیتے ھیں جیسا کہ ھم دیکھتے ھیں کہ کھانا پینا، حرکت کرنا، لکھنا، پڑھنا اور ھمارے روز مرّہ کے امور انجام دینے والے کا هونا ضروری ھے تو اس کائنات کا خلق کرنے والے کا بھی هونا ضروری ھے اور وہ خداوندعالم کی ذات اقدس ھے جس طرح ھر چیز کے لئے بنانے والے ،کتاب کے لکھنے کے لئے کاتب اور مکان کے بنانے کے لئے معمار کا هونا ضروری ھے۔

قرآن کریم سے استدلال

ھم اس وقت قرآن کریم کی ان آیات کو بیان کرتے ھیں جن کے ذریعہ اس حقیقت کی واضح طور پر برھان ودلیل قائم کی گئی ھےں۔

قارئین کرام ! قرآن کریم وجود خالق پر مختلف طریقوں سے بہت سی دلیلیں اور برھان بیان کرتا ھے اور اس سلسلہ میں بہت زیادہ اہتمام کیا ھے جبکہ دوسری آسمانی کتابوں میں اس قدر اہتمام نھیںکیا گیا ھے بلکہ جس قدر قرآن کریم نے وجود خدا پر دلائل وشواہد پیش کئے ھیں کسی بھی(آسمانی) کتاب میں نھیں ھیں، قرآن کریم میں سوئی هوئی عقلوں کو مکمل طور پر بیدار کردیا گیا ھے۔

شاید یھی سبب هو کہ توریت میں ملحدین اور خدا کے بارے میں شک کرنے والوں کو قانع کرنے کا کوئی اہتمام نھیں کیا گیا کیونکہ توریت میں ان لوگوںکو مخاطب کیا گیا ھے جو اسرائیل کے خدا پر ایمان رکھتے تھے، اور اس کے وجود میں ذرا بھی شک نھیں کرتے تھے بلکہ توریت میں خدا کے غضب سے ڈرایا ھے او رغیر خدا پر ایمان لانے والوں کی عاقبت سے باخبرکیا گیا ھے اور اگر ان کو اپنے واجبات میں غفلت کرتے دیکھا گیا تو ان کو خدا کے وعدہ اوروعید کی یاد دھانی کرائی گئی ھے۔

اسی طرح انجیل (جبکہ بعض تواریخ میں کئی انجیل بتائی گئی ھیں) اور مذھب اسرائیل میں وجود خدا کے سلسلے میں کوئی اختلاف نھیں تھا بلکہ سب سے بڑا اختلاف یہ تھا کہ اس قوم کے سردار نفاق کے شکار هوگئے تھے اور انھوں نے دین کا مذاق بنا رکھا تھا اور مال ودولت ا ورجاہ وحشم کے پیچھے پڑے هوئے تھے (چنانچہ انجیل میں ان سب چیزوں کے بارے میں توجہ دلائی گئی ھے)

اور جب اسلام کا ظهور هوا، او رقرآن کریم نازل هوا تو اس وقت لوگوں میں وجود خدا کے بار ے میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا تھا اس دور میں ملحد( دھریہ)مشرک اور توریت وانجیل کے ماننے والے پائے جاتے تھے او ران سب کا خدا اور اس کے طریقہٴ عبادت میں اپنا الگ الگ نظریہ تھا لہٰذا قرآن کریم کے لئے اس سلسلے میں خاص اہتمام کرناضروری تھا کیونکہ اس دور میں سبھی لوگوں کو اسلام کی دعوت دینا تھی اور ان کو قانع کرنا اور راہ راست کی طرف ہدایت کرنامنظور تھا۔

اور چونکہ اسلام خاتم الادیان اور قرآن کریم خاتم الکتب ھے، اور اس دین اور اس کتاب کی خصوصیت یہ ھے کہ اس میں قیامت تک کے لوگوں کے لئے اعتقادی اور دنیاوی پھلوؤں کو بیان کیا گیا ھے لہٰذا قرآن کریم میں ان تمام پھلووٴں پر توجہ بہت ضروری تھی، لہٰذا قرآن کریم میں وجودِ خداوندعالم پر دلائل بیان کئے ھیں اور ملحدین ومشککین اور جاھلوں کو اس کائنات کے خالق اور ان عظیم آثار کی طرف توجہ دلائی جو خداوندعالم کے وجود او رکمال پر دلالت کرتے تھے ،لہٰذا اس سلسلہ میں موجود ھر طرح کے شبھات واعتراضات کا سدّ باب کردیاگیا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next