حضرت امام حسین علیہ السلام کی حیات مبارکه



امام حسین(ع) اپنے والد بزرگوار کے ساتھ

حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار کی عطوفت کے زیر سایہ پرورش پائی آپ کے والد بزرگوار آپ سے اتنی محبت کرتے تھے کہ آپ نے جنگ صفین میں اپنے دونوں فرزندوں کو میدان جنگ میں حاضر ھونے کی اجازت نھیں دی کہ کھیںان کے شھید ھوجانے سے نسل رسول منقطع نہ ھو جائے، مولائے کائنات آپ اور آپ(ع) کے بھا ئی امام حسن(ع) کی تعریف کرتے تھے، آپنے ان دونوں کو اپنے فضائل و کمالات سے آراستہ کیااور اپنے آداب اور حکمتوں کے ذریعہ فیض پھنچایایھاں تک یہ دونوں آپ کے مانند ھو گئے ۔

امام حسین(ع) شجاعت ،عزت نفس ،غیرت اور نورانیت میں اپنے پدر بزرگوار کی شبیہ تھے ،آپ نے بنی امیہ کے سامنے سر جھکانے پر شھادت کو ترجیح دی ،جس کی بنا پر آپ نے ظاھری زندگی کو خیرآباد کھا اور راہِ خدا میں قربان ھونے کےلئے آمادہ ھو گئے ۔ھم اس سلسلہ میں ذیل میں قارئین کرام کےلئے کچھ مطالب پیش کرتے ھیں :

حضرت علی(ع) کا امام حسین(ع) کی شھادت کی خبر دینا

حضرت علی(ع) نے اپنے بیٹے ابوالاحرار کی شھادت کی خبر کو شایع کیا اس سلسلہ میں ھم امام حسین(ع) سے متعلق حضرت علی(ع) کی چند احا دیث بیان کرتے ھیں :

۱۔عبداللہ بن یحییٰ نے اپنے پدر بزرگوار سے نقل کیا ھے کہ میں نے حضرت علی علیہ السلام کے ھمراہ صفین تک کاسفر طے کیا، یحییٰ کے والد مولائے کا ئنات کا لوٹا اپنے ساتھ رکھتے تھے، جب ھم نینوا کو پا ر کرچکے تو مو لائے کائنات نے بلند آواز میں فرمایا:اے ابو عبد اللہ ٹھھرو!اے ابو عبد اللہ ٹھھرو فرات کے کنارے پر“یحییٰ آپ کی طرف یہ کہتے ھوئے بڑھے :ابو عبداللہ کیا بات ھے ؟تو امام(ع) نے فرمایا:”میں ایک دن رسول اللہ کی خدمت میں پھنچا تو آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ آپ کو کسی نے رنجیدہ کردیا ھے ؟آپ کی آنکھوں میں آنسو کیسے ھیں ؟آنحضرت نے فرمایا:میرے پاس جبرئیل آئے اور انھوں نے مجھے خبر دار کیا ھے کہ حسین(ع) کو فرات کے کنارے قتل کردیا جا ئیگا،اور فرمایا:کیا تمھارے پاس اس جگہ کی مٹی ھے جس کامیں استشمام کروں؟جبرئیل نے جواب دیا :ھاں،تو مجھے ایک مٹھی خاک اس جگہ کی اٹھا کر دی لہٰذا میری آنکھیں آنسووں کو نھیں روک سکی “۔[19]

۲۔ھرثمہ بن سلیم سے مروی ھے کہ ھم جنگ صفین کےلئے حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ چلے جب ھم کربلا میں پھنچے تو ھم نے نماز ادا کی، نماز کے بعد آپ(ع) نے اس جگہ کی مٹی کو اٹھایا اور اس کو سونگھنے کے بعد فرمایا:”اے زمین !تجھ سے ایک ایسی قوم محشور ھو گی جو بغیر حساب کے جنت میں جا ئیگی “

ھرثمہ کو امام(ع) کے اس فرمان پر تعجب ھوا ،اور امام کی بات بار بار اس کے ذھن میں آنے لگی ، جب وہ اپنے شھر میں پھنچے تو انھوں نے یہ حدیث اپنی زوجہ جرداء بنت سمیر کوجو امام کے شیعوں میں سے تھی کو سنا ئی ۔ اس نے کھا : اے شخص! ھم کو ھمارے حال پر چھوڑ دو ،بیشک امیرالمومنین حق کے علاوہ اور کچھ نھیں کہتے ،ابھی کچھ دن نھیں گذرے تھے کہ ابن زیاد نے اپنے لشکر کو فرزند رسول امام حسین(ع) کے ساتھ جنگ کر نے کےلئے بھیجا،ان میں ھر ثمہ بھی تھا جب وہ کر بلا پھنچا تو ان کو امیر المو منین (ع) کا فرمان یاد آگیااور ان کے فرزند ارجمندامام حسین(ع) سے جنگ کر نے کے لئے تیار نھیں ھوا ۔

اس کے بعد امام حسین(ع) کی خدمت اقدس میں پھنچا اور جو کچھ آپ کے پدربزرگوارسے سنا تھا اُن کے سامنے بیان کیاامام(ع) نے اس سے فرمایا: ”انت معنااوعلینا ؟“تو ھمارے ساتھ ھے یا ھمارے خلاف ھے “،ھر ثمہ نے کھا :نہ آپ کے ساتھ ھوں اور نہ آپ کے خلاف ھوں، بلکہ میں نے اپنے اھل و عیال کو چھوڑ دیا ھے اور اب ان کے سلسلہ میں ،میں ابن زیاد سے ڈررھا ھوں ،امام(ع) نے اس کو نصیحت کرتے ھوئے فرمایا: ”ولّ ھارباحتی لاتریٰ لنامقتلا،فوالذی نفس محمد بیدہ لایریٰ مقتلنا الیوم رجل ولایغیثنا الّاادخلہُ النار “ھر ثمہ وھاں سے جلد ھی چلا گیا اور اس نے امام کو قتل ھوتے ھوئے نھیں دیکھا۔[20]

۳۔ثابت بن سویدنے غفلہ سے روایت کی ھے : ایک دن حضرت علی(ع) نے خطبہ دیا تو آپ کے منبر کے پاس سے ایک شخص نے کھڑے ھو کر عرض کیا :یا امیر المو منین !میرا وا دی قریٰ کے پاس سے گذر ھوا تو میں نے خالد بن عرفطہ کو مرے ھوئے دیکھا! لہٰذا آپ(ع) اس کے لئے استغفار کردیجئے ۔

امام(ع) نے فرمایا :”خدا کی قسم وہ اس وقت تک نھیں مرے گا جب تک ایک گمراہ لشکر کی قیادت نہ کرلے اور اس کا پرچمدار حبیب بن حمار ھوگا ۔۔۔“۔

ایک شخص نے کھڑے ھوکر بلند آواز میں کھا :اے امیر المو منین میں حبیب بن حمار ھوں ،اور آپ(ع)کا شیعہ اور چا ھنے والا ھوں ۔۔۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 next