حضرت علی علیہ السلام کے مختصر فضائل و مناقب



”اے لوگو!مجھے عنقریب قبض روح Ú©Û’ ذریعہ خدا Ú©ÛŒ بارگاہ میں جانا Ú¾Û’ میں اس سے Ù¾Ú¾Ù„Û’  تمھارے لئے بیان کرچکا ھوںآگاہ ھوجاؤ کہ میں تمھارے درمیان اپنے پروردگار Ú©ÛŒ کتاب اور اپنی عترت اپنے اھل بیت(ع)Ú©Ùˆ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر جا رھا Ú¾ÙˆÚº “۔

اس کے بعد آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی(علیه السلام) کا ھاتھ پکڑ کر فرمایا :”یہ علی(علیه السلام) قرآن کے ساتھ ھیں اور قرآن علی(ع)(ع)کے ساتھ ھے ،یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے یھاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ھوں گے “۔[87]

حدیث سفینہ

ابو سعید خدری سے مر ÙˆÛŒ Ú¾Û’ کہ میں Ù†Û’ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم) Ú©Ùˆ یہ فرماتے سنا Ú¾Û’ :بیشک Û” تمھارے درمیان میرے اھل بیت(علیه السلام) Ú©ÛŒ مثال کشتی نوح Ú©Û’ مانندھے ،جو اس میں سوار Ú¾Ùˆ گیا اس Ù†Û’ نجات پائی اور جس  Ù†Û’ اس سے رو گردانی Ú©ÛŒ وہ ھلاک ھوگیا ،بیشک تمھارے درمیان میرے اھل بیت(علیه السلام) Ú©ÛŒ مثال بنی اسرائیل میں باب حطّہ Ú©Û’ مانند Ú¾Û’ جو اس میں داخل ھوا وہ بخش دیا گیا “۔[88]

اس حدیث شریف میں اس بات کی حکایت کی گئی ھے کہ عترتِ طاھرہ سے متمسک رھنا واجب ھے اسی میں امت کے لئے زندگی کے نشیب و فراز میں نجات اور غرق ھونے سے محفوظ رھنا ھے ،پس اھل بیت(علیه السلام) نجات کی کشتیاں اور بندوں کا ملجا و ماویٰ ھیں ۔

امام شرف الدین( خدا ان Ú©Û’ درجات بلند کرے ØŒ)کا کھنا Ú¾Û’ :”اھل بیت(ع)Ú©Û’ کشتی  نوح Ú©Û’ مانند ھونے کا مطلب یہ Ú¾Û’ کہ جس Ù†Û’ دنیا Ùˆ آخرت میں اِن Ú©Ùˆ اپنا ملجا Ùˆ ماویٰ قرار دیا ،اوراپنے فروع Ùˆ اصول ائمہ معصومین(علیه السلام) سے حاصل کئے وہ دوزخ Ú©Û’ عذاب سے نجات پا گیا ،اور جس Ù†Û’ اُن سے روگردانی Ú©ÛŒ وہ اس Ú©Û’ مانند Ú¾Û’ جس Ù†Û’ طوفان Ú©Û’ دن اللہ Ú©Û’ امر سے بچنے کےلئے پھاڑ Ú©ÛŒ چوٹی پر پناہ Ù„ÛŒ اور غرق ھوگیا ØŒ اس Ú©ÛŒ منزل آب ِ حمیم Ú¾Û’ جو بہت Ú¾ÛŒ گرم پا Ù†ÛŒ Ú¾Û’ اور جس سے Ú¾Ù… اللہ Ú©ÛŒ پناہ مانگتے ھیں Û”

ائمہ(علیه السلام) کو باب حطّہ سے اس لئے تشبیہ دی گئی ھے کہ باب حطّہ خدا کے جلال کے سامنے تواضع کا مظھرتھاجو بخشش کا سبب ھے ۔یہ وجہ شبہ ھے ،اور ابن حجر نے اِس اور اِس جیسی دوسری احادیث کو بیان کرنے کے بعد کھا ھے :

ائمہ(ع)Ú©Û’ کشتی  نوح سے مشابہ ھونے Ú©ÛŒ وجہ یہ Ú¾Û’ کہ جس Ù†Û’ ان سے محبت Ú©ÛŒ اور ان Ú©Û’ شرف Ú©ÛŒ نعمت کا شکریہ ادا کرنے کےلئے ان Ú©ÛŒ تعظیم Ú©ÛŒ اور ان Ú©Û’ علماء سے ھدایت حاصل کی، اُس Ù†Û’ تاریکیوں سے نجات پا ئی اور جس Ù†Û’ مخالفت Ú©ÛŒ وہ کفران ِ نعمت Ú©Û’ سمندر میں غرق Ú¾Ùˆ گیا اور سرکشی Ú©Û’ امنڈتے ھوئے سیلاب میں ھلاک Ú¾Ùˆ گیا ۔یھاں تک کہ فرمایا:(باب حطّہ ) یعنی ائمہ Ú©ÛŒ باب حطّہ سے مشابہ ھونے Ú©ÛŒ وجہ یہ Ú¾Û’ کہ جو بھی اس باب ”دروازہ “یعنی اریحا یا بیت المقدس میں تواضع اور استغفار Ú©Û’ ساتھ داخل ھوگا خدا اس Ú©Ùˆ بخش دے گا ØŒ اسی طرح اھل بیت(ع)سے مودت Ùˆ محبت کواس امت Ú©ÛŒ مغفرت کا سبب قراردیا ) Û”[89]

اھل بیت(علیه السلام) امت کے لئے امان ھیں

نبی اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم) Ù†Û’ اس امت کےلئے اھل بیت Ú©ÛŒ محبت Ú©Ùˆ واجب قرار دیا اور ان سے متمسک رھنے Ú©Ùˆ  امت کےلئے ھلاک ھونے سے امان قرار دیتے ھوئے فرمایا :”ستارے زمین والوں کےلئے غرق ھونے سے امان ھیں اور میرے اھل بیت(ع)میری امت میں اختلاف نہ ھونے کےلئے امان ھیں جب عرب کا Ú©Ùˆ ئی قبیلہ ان Ú©ÛŒ مخالفت کرے تو اُن میں اختلاف Ú¾Ùˆ جا ئیگا اور وہ ابلیس Ú©Û’ گروہ میں ھوجائیں Ú¯Û’ “۔[90]

امام(علیه السلام) ،جھاد میں نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ساتھ

نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے مثبت انداز میں صلح کی دعوت اختیار کی ا س دعوت میں آپ نے اعلان کیا کہ میرا پیغام دین تم کو جنگوں کے عذاب سے نجات دلائے گا،آپ کی یہ دعوت مکہ میں پھیل گئی وہ مکہ جو جاھلیت کی طاقتوں کا مرکز تھا وہ طاقتیں جو قرشیوں کی شکل میں مجسم ھو ئی تھیںان قرشیوں کے نظریات جھالت ، خود غرضی اور انانیت پر مشتمل تھے نبی کے پیغام کی بنا پر ان کے غرور کا بھرم ٹوٹ گیااور ان کاجادو باطل ھوگیا، انھوں نے نبی سے مقابلہ کی ٹھان لی اور نبی پر ایمان لانے والے کوستانے کا فیصلہ کیا ان کو اذیت دینے لگے یھاں تک کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ماننے والے کو قرشیوں کی سختیوں اور ان کے قتل و غارت سے بچنے کےلئے مجبور ھو کر حبشہ ہجرت کر نا پڑی ،لیکن رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنے چچا شیخ البطحاء اوران کے فرزند ارجمند امام امیر المومنین(علیه السلام) کی حمایت میں تھے اپنے چچا ابو طالب(ع)کی وفات کے بعد نبی کو کو ئی پناہ دینے والا نہ رھا اسی لئے قریش نے جمع ھوکر آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کوقتل کرنا چاھا(جیسا کہ ھم بیان کرچکے ھیں ) تو آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) یثرب ہجرت فرماگئے ،آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اھل یثرب کو اپنے دین کی حمایت کرنے والااور اپنامددگار پایاتوآپ نے قرشیوں کا مقابلہ کرنے کےلئے قیام کیااور ان کے سامنے بڑی سختی کے ساتھ ڈٹ گئے ،تو کفار قریش نے آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے خلاف میدان جنگ گرم کرنے اور اقتصادی ناکہ بندی کرنے کا فیصلہ کیا۔

امام امیر امو منین(علیه السلام) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی جانب سے ایک محکم و مضبوط طاقت بن کر سامنے آئے آپ(علیه السلام) نے قریش کی طرف سے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر تھوپی جانے والی تمام جنگیں لڑیں اور رسول اسلام عام طور پر آپ(علیه السلام) ھی کوجنگ کی قیادت سونپتے تھے ،ھم ذیل میں امام(علیه السلام) کی طرف سے لڑی جانے والی بعض جنگوں کی طرف اشارہ کر رھے ھیں :



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 next