خداوند عالم کی مرضی کو اپنی خواھشات کے پر ترجیح دینا



<اللّٰھم اجعل غنای فی نفسی،والیقین فی قلبی،والاخلاص فی عملی، والنور فی بصری،والبصیرة فی دینی>

”پروردگار میرے نفس کو غنی بنادے ،میرے قلب کو یقین،عمل میں اخلاص ،آنکھوں میں نور اور دین میں بصیرت عطافرما“

آخر فقر و غنی کا مفھوم مال ودولت کے بجائے نفس سے متعلق کیسے ھوتاھے؟اسکاراز کیا ھے ؟ در حقیقت تبدیلی کا یہ راز دین اسلام کے پراسرار عجائبات میں شامل ھے۔ھمیں گاھے بگاھے اسکے بارے میں غوروخوض کرنا چاہئے۔

افکار کی تبدیلی میں اسلامی اصطلاحات کا کردار

”فقر“اور”استغنا“دواسلامی اصطلاحیں ھیں اور اسلام اپنی اصطلاحات کے لئے بہت اھمیت کا قائل ھے اسی لئے اسلام نے دور جاھلیت کی کچھ اصطلاحوں کو کا لعدم قرار دیا ھے اور انکی جگہ پر بہت سی نئی اصطلاحات پیش کی ھیں اور انھیں اصطلاحات کے ذریعہ فکروخیال میں تبدیلی کی ھے اور قدروقیمت کا نیا نظام پیش کیاھے۔دورجاھلیت میں اقدار کے اصول جدا تھے جبکہ اسلام کے اصول الگ ھیں۔

کبھی اسلام دور جاھلیت کی قدروں کو مکمل طریقہ سے ختم کرتا ھے اور ان کی جگہ پر سماجی زندگی کے جدید اقدار کوروشناس کراتاھے ۔زمانہ جاھلیت میں جس چیز کو سیاسی،اخلاقی اورسماجی زندگی میں بے قیمت سمجھاجاتاتھا اسلام نے اسی چیز کو سیاسی،سماجی اور اخلاقی طور پر بیش قیمت بناکر پیش کیاھے۔

مثلاً دور جاھلیت میں عورت کی کوئی حیثیت اور قدروقیمت نھیں تھی لوگ لڑکیوں کے وجودکو ننگ وعار سمجھتے تھے لیکن اسلام نے اسی بے قیمت سمجھی جانے والی چیز کو عظیم ترین بلندی عطا کی۔

قدروقیمت کا اختلاف در اصل قدروقیمت کے نظام میں اختلاف کی بنیاد پر سامنے آتاھے کیونکہ تمام اقدار حقیقتاًکسی نہ کسی اصول اورنظام کی بنیاد پر استوار ھوتے ھیں جن کی معرفت کے بغیر اقدار کی معرفت ممکن نھیں ھے ۔

دین اسلام نے اپنی اصطلاحات کے ذریعہ اقدار کے اصول ونظام کو تبدیل کیا ھے جسکے نتیجہ میں اقدار خودبخود تبدیل ھوجاتے ھیں اورسماج میں تبدیلی آجاتی ھے بطور نمونہ فقط اس تبدیلی کی جانب اشارہ کردینا کافی ھے جو اسلام نے فقروغنی کے معیار میں کی ھے جس کے نتیجہ میں ان کے مفھوم میں بھی تبدیلی پیدا ھوگئی ھے۔

فقرواستغنا اور اقدار کے اسلامی اصول

عام طورسے لوگوں کے درمیان فقر وغنی کا مطلب مال ودولت کی قلت وکثرت ھے۔یعنی جسکے پاس زیادہ سونا چاندی نہ ھو وہ فقیرھے اور جس کے پاس سونا چاندی و افر مقدار میں ھوا سے غنی کھاجاتاھے اور مالداری کے درجات بھی مال کی مقدارسے طے ھوتے ھیں۔یعنی جس شخص کی قوت خرید جتنی زیادہ ھوتی ھے وہ اتنا ھی بڑا مالدار شمار کیا جاتا ھے اسکے برخلاف جس کے پاس روپے پیسوں کی قلت ھووہ اتناھی غریب سمجھاجاتاھے۔اس طرح عام لوگوں کے خیال میں فقر واستغنا کا تعلق کمیّت”مال کی مقدار“ سے ھے۔

دور جاھلیت کا نظام قدروقیمت

فقرواستغناکے ان معنی میں بذات خود کوئی خرابی نھیں Ú¾Û’ اور اگر بات یھیں تمام ھوجاتی تو اسلام اسکی مخالفت نہ کرتا لیکن حقیقت یہ نھیں Ú¾Û’ بلکہ جاھلیت Ú©Û’ نظام Ú©Û’ تحت ثروتمندی سے سماجی اور سیاسی اقدار بھی جڑجاتے ھیں اور ثروتمندانسان معززو محترم کھلاتاھے اسکی سماجی حیثیت اوراسکے  سیاسی نفوذ میں اضافہ ھوجاتاھے وہ لوگوں کا معتمدبن جاتاھے وغیرہ۔۔۔اس طرح نظام جاھلیت میں واضح طور پر کمیت(Quantity)کیفیت( Quality)میں تبدیلی ھوجاتی Ú¾Û’Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 next