خداوند عالم کی مرضی کو اپنی خواھشات کے پر ترجیح دینا



جب بھی ھم غور کریں گے تو ھمیں صاف محسوس ھوگاکہ یھاں زروجواھر کی مقدارو کمیت (Quantity)سماجی اور سیاسی کیفیت میں تبدیلی ھوگئی ھے بلاشبہ اجتماعی اور سماجی زندگی میں مقداروکمیت(Quantity )اور کیفیت میں براہ راست تعلق پایاجاتا ھے اور اس تعلق اور رابطہ کو ختم کرنایا اسکا انکار ناممکن ھے اور اسلام بھی اس تعلق اور رابطہ کو ختم کرنا نھیں چاہتابلکہ اس رابطہ کو الٹ دینا چاہتا ھے یعنی کمیت اور مقدار کو کیفیت کا تابع قرار دیتا ھے نہ کہ کیفیت کو کمیت کا۔

مثلاًاقتصادی اور کاروباری معاملات کی بنیاد صداقت اور تقویٰ ھوناچاہئے اور اسی بنیاد پر کاروبار کو وسعت دینا چاھیے یا سیاسی میدان میں بھی ھرچیزکی بنیاد صداقت اور تقویٰ ھوناچاہئیے اوراسی بنیاد پرووٹ حاصل کرنا چاھیے کہ یھی چیزیںصحتمند معاشرے کی پہچان ھیں۔

لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ھو اور سماجی یا سیاسی زندگی میں کمیت ومقدار معیار بن جائے تو سماج میں پائے جانے والے اقدار و اصول کا وجود خطرہ میں پڑجاتاھے۔دور جاھلیت میں بعینہ یھی صورت حال موجود تھی کہ مادیت پرروحانیت کی حکومت ھونے کے بجائے مادیت،روحانیت پر حاکم ھوگئی تھی اور قدروقیمت کا تعیّن مادیت سے ھوتاتھا نہ کہ معنویت سے۔

اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ھونے Ú©Û’ ساتھ ساتھ یھی صورت حال مسلمانوں Ú©Û’ سامنے بھی آئی اسلام Ù†Û’ قدروقیمت کا ایسا نظام پیش کیا تھا کہ جو دور جاھلیت Ú©Û’ پروردہ لوگوں Ú©Û’ لئے نامانوس تھا۔ اس نظام میںاسلام Ù†Û’ قدروقیمت اورمنزلت کا معیار روحانیت Ú©Ùˆ قرار دیا تھا اور مادیت Ú©Ùˆ روحانیت کا تابع بنایاتھا۔لیکن جب فتوحات کا سلسلہ شروع ھوا اور قیصر Ùˆ کسریٰ Ú©Û’ خزانے مسلمانوں Ú©Û’ ھاتھ آئے اور سرحدوں Ú©ÛŒ وسعت Ú©Û’ ساتھ دولت میں بھی بے پناہ اضافہ ھواتو مادیت غالب آگئی اور قدروقیمت کا نظام پس پشت چلاگیا۔اور دوبارہ زروجواھر Ú¾ÛŒ تمام اقدار کا معیار بن گئے اور انکی حالت اس عھد Ú©ÛŒ سی ھوگئی جس میں خداوند عالم Ù†Û’ رسول اسلام  (ص) Ú©Ùˆ مبعوث کیا تھا اور آپ Ú©Ùˆ قائدوپیشوا اور رسول بنا کر بھیجاتھا۔

عثمان بن عفان کے بعد امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب (ع) جب حاکم مسلمین ھوئے تو آپ نے محسوس کیا کہ اسلامی معاشرہ اس طرح منقلب ھوچکا ھے کہ جیسے کوئی اس طرح الٹا لباس پھن لے جسکا اندرونی حصہ باھر،اور ظاھری حصہ اندر ،اوپری حصہ نیچے اور نچلا حصہ اوپر ھوگیا ھو۔ چنانچہ امیر المومنین (ع) بنی امیہ کے بارے میں فرماتے ھیں:

<ولُبس الاسلام لُبسَ الفرومقلوباً >[6]

”اسلام یوں الٹ دیا جائے گا جیسے کوئی الٹی پوستین پھن لے“

جیسا کہ آپ نے ان الفاظ میں اسکی عکاسی کی ھے :

<اٴلا وان بلیّتکم قدعادت کھیئتھا یوم بعث اللّٰہ نبیکم،والّذی بعثہ بالحقّ لتبلبلنّ بلبلةً ولتغربلنّ غربلةً،ولَتساطُنّ سَوطَ القدرحتّی یعود اسفلکم اٴعلاکم >[7]

”یاد رکھو! تمھارا امتحان بالکل اسی طرح ھے جس طرح پیغمبر کی بعثت کے دن تھا اس ذات کی قسم جس نے رسول کو حق کے ساتھ بھیجا تم بری طرح تہ وبالا کئے جاؤ گے اور اس طرح چھانے جاؤ گے جس طرح چھنّی سے کسی چیز کو چھانا جاتا ھے اور اس طرح خلط ملط کئے جاؤ گے جس طرح پتیلی کے کھانے کو پلٹاجاتا ھے یھاں تک کہ تمھارے ادنیٰ اعلیٰ اور اعلیٰ ادنیٰ ھوجائیںگے “۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 next