اسلام میں انفاق کی اہمیت



اورچونکہ ہر انسان کے عمل کی قیمت اس کے خلوص کی بنیاد ہو تی ہے لہٰذا پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہے:تم جو کچھ بھی انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ اور باخبر ہے”وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ“یعنی خداوند عالم تمہارے اعمال کی مقدار اور کیفیت سے بھی آگاہ ہے اور نیت وخلوص سے بھی باخبرہے ۔

مذکورہ آیت میں ایک بار پھر راہ خدا میں انفاق کی تشویق کے آخر میں ایک خوبصورت تعبیر بیان کی گئی ہے :کون ہے جو پروردگار کو قرض دے اور جو مال ودولت خدا نے اسے عطا کیا ہے ان میں سے انفاق کرے تاکہ پروردگار اسے کئی گنا کر دے اور اس کے لئے بہت زیادہ اور با قیمتی اجر ہے: ”مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہُ قَرْضاًحَسَناًفَیُضَاعِفْہُ لَہُ وَلَہُ اَجْرٌ کَرِیْمٌ“

واقعاً یہ ایک عجیب وغریب تعبیر ہے وہ خدا جو ساری نعمتوں کا عطا کرنے والا ہے اور ہمارے وجود کا ذرہ ذرہ ہر لمحہ اس کے بے پایاں دریائے فیض سے بہرہ مند ہو رہا ہے اور اسی کی ملکیت ہے ۔ اس نے ہم کو صاحب مال و دولت شمار کیا ہے اور ہم سے قرض کا مطالبہ کر رہا ہے ۔اور عام قرض کے خلاف جہاں اتنی ہی مقدار واپس کی جاتی ہے وہ اس میں کئی گنا اور کبھی سو گنا اور کبھی ہزار گنا اضافہ کر دیتا ہے اور ان سب باتوں کے علاوہ ”اَجْرٌ کَرِیْمٌ “کاوعدہ بھی کرتا ہے جو ایک عظیم اجر ہے جس کی مقدار خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔

جذبہٴ انفاق

گذشتہ آیتوں میں راہ خدا میں خرچ کرنے (چاہے جہاد کے لئے ہویاحا جت مندوں کی مدد کے لئے )کی تشویق کو مختلف عبارتوں میںبیان کیا گیا ہے جن میں سے ہر ایک اس مقصد کی طرف قدم بڑھانے کا سبب بن سکتی ہیں ۔

ایک آیت میں مال و دولت میںلوگوں کی ایک دوسرے یا پروردگار کی جانشینی اور نیابت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حقیقی مالکیت کو خدا سے مخصوص جانتا ہے اور سارے انسانوں کو ان اموال میں اپنا نائب بنانا، یہ تفکر اور طرز فکرانسان کے ہاتھ اور دل کو انفاق کے لئے کھولتا ہے اور اس راہ میں قدم اٹھانے کا سبب بنتا ہے ۔

دوسری آیت ،ایک دوسری تعبیر بیان کرتی ہے جو مال ودولت کی نا پائیداری اور انسانوں کے بعد باقی رہ جانے کی حکایت کرتی ہے اور وہ تعبیر ”میراث“ ہے ارشاد فرماتاہے ”آسمان وزمین کی میراث خداوندعالم ہی کی ہے “

تیسری آیت میں ایک ایسی تعبیر بیان کی گئی ہے جو سب سے زیادہ حساس ہے اور خدا وند عالم کو قرض لینے والا اور انسانوں کو قرض دینے والا بتارہی ہے ۔ایسا قرض جس میں سود اور سود کی حرمت کاگزر نہیں اور اس کے مقابلہ میں کئی گنا بلکہ ہزاروں گنا واپس دیا جا ئے گا ۔ اس عظیم اجر کے ساتھ جوکسی کی فکر میں سما نہیں سکتا ۔

یہ سارے بیانات اس لئے ہیں کہ کج فکری ، حرص ولالچ ،حسد ، خود خواہی ،فقر اور تنگدستی کا خوف ، بڑی بڑی آرزؤں کو ختم کردیا جائے جو راہ خدا میں انفاق کے لئے رکاوٹ بنتی ہیں اور عطوفت، مہربانی ،ہم نوع دوستی اور تعاون کی بنیاد پر ایک خوشحال معاشر ہ اور کووجود میں لایا جا سکے ۔

۶. سرمایہ جاودانی



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next