اسلام میں انفاق کی اہمیت



< قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہ وَیَقْدِرُ لَہ وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِنْ شَیْ ءٍ فَہُوَیُخْلِفُہ وَ ہُوَ خَیْرُالرَّاْزِقِیْنَ>(سورہٴ سبا: آیت۳۹)

بے شک ہمارا پروردگار اپنے بندوں میں جس کے رزق میں چاہتا ہے وسعت پیدا کرتا ہے اور جس کے رزق میں چاہتا ہے تنگی پیدا کرتا ہے اور جو کچھ اس کی راہ میں خرچ کروگے وہ اس کا بدلہ بہر حال عطا کرے گا اور وہ بہتر رزق دینے والا ہے ۔

وضاحت

اس آیہٴ کریمہ میں ان لوگوں کی بات کا جواب دیا گیا ہے جو یہ گمان کرتے ہیں کہ مال واولاد خدا کی بارگاہ میں قربت کی دلیل ہےں ۔لہٰذا اس تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ: اے پیغمبر کہہ دیجئے کہ میرا پروردگار اپنے بندوںمیں جس کے رزق میں چاہتا ہے وسعت پیدا کرتا ہے اور جس کے رزق میں چاہتا ہے تنگی پیدا کرتا ہے: ”قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہ وَ یَقْدِرُ لَہ“اس کے بعد ارشاد فرماتا ہے: تم خدا کی راہ میں جو بھی خرچ کروگے وہ اس کا بدلہ بہر حال عطا کرے گااور وہ بہترین روزی دینے والا ہے ۔

اگر چہ اس آیت کا معنی گذشتہ مطلب کی تاکید ہے لیکن دو جہت سے اس میں نیا معنی ہے :پہلا یہ کہ گذشتہ آیت کا معنی یہی معنی تھا مگر اس میں زیادہ تر کفار کے اموال اور اولاد کے سلسلہ میں بیان ہے جبکہ اس آیت میں کلمہٴ -”عباد“ (بندے) صاحبان ایمان کی طرف اشارہ ہے یعنی خداوند عالم صاحبان ایمان کی بھی روزی میںوسعت پیدا کرتا ہے اگر ان کی مصلحت کے مطابق ہو اور کبھی ان کی روزی میں تنگی پیدا کرتا ہے جب ان کی مصلحت اس بات کا تقاضا کرے ۔ بہرحال روزی کی وسعت اور تنگی کسی انسان کے بارگاہ الٰہی میں مقرب ہونے یااس کی بارگاہ سے دور ہونے کی دلیل نہیں ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ گذشتہ آیت دو مختلف افراد کی روزی میں وسعت اور تنگی کو بیان کر رہی تھی لیکن یہ آیہٴ کریمہ ممکن ہے ایک ہی انسان کی دو مختلف حالتوں کی طرف اشارہ کر رہی ہو کہ کبھی اس کی روزی میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے اور کبھی تنگی ۔

اس کے علاوہ آیت کے شروع میں بیان کیا جانے والا مطلب آخرآیت میں بیان ہونے والے مطلب کے لئے ایک مقدمہ ہے اور وہ راہ خدا میں انفاق کرنے کی تشویق کرنا ہے ۔

جملہ”فہو یخلفہ“ ایک بہترین تعبیر ہے جو اس بات کو بیان کر رہی ہے کہ راہ خدامیں خرچ ہونے والی ہر شیء ایک فائدہ مند تجارت کے مثل ہے ۔ اس لئے کہ خدا وند عالم نے اس کے بدلے کو اپنے ذمہ لیا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ جب ایک کریم اور سخی انسان کسی چیز کے عوض کو اپنے ذمہ لیتا ہے تووہ صرف برابری اور مساوات کی ہی رعایت نہیں کرتا بلکہ اس کے عوض کو کئی گنا اور کبھی کبھی سو گنا کر کے واپس کرتا ہے ۔

البتہ یہ وعدئہ الٰہی روز قیامت سے مخصوص نہیں ہے وہ تو اپنی جگہ محفوظ ہے ہی بلکہ وہ دنیا میں بھی طرح طرحبرکتوں اور رحمتوں کے ذریعہ اس انفاق کی جگہ کوبطور احسن پرُ کردیتا ہے ۔

جملہ ”ہُوَ خَیْرُ الرَّاْزِقِیْنَ“ (وہ بہترروزی دینے والا ہے) کا ایک وسیع اور عام معنی ہے اور مختلف زاویہٴ نظر سے غور و فکر کے قابل ہے ۔

وہ تمام روزی دینے والوں میں سب سے بہتر ہے اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ کیا چیز عطا کرے اور کس مقدار میں عطا کرے تاکہ انسان کی تباہی اور گمراہی کا سبب نہ بننے پائے اسلئے کہ وہ ہر چیز سے آگاہ ہے وہ جو بھی چاہے عطا کرسکتا ہے اسلئے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔

وہ عطا کے مقابلہ میں جزا نہیں چاہتا اس لئے کہ وہ غنی بالذات ہے یعنی ہر چیز سے بے نیاز ہے یہاں تک کہ وہ بغیر درخواست اورطلب کے بھی بندوں کو عطا کرتا ہے اس لئے کہ وہ حکیم اورہر چیز سے باخبر ہے ۔

بلکہ اس کے علاوہ اس کائنات میں کوئی دوسرا رازق ہی نہیں ہے اس لئے کہ ہر چیز اسی کی عطاہے اور جو شخص بھی کسی دوسرے کو کوئی چیز دیتا ہے ”وہ روزی کومنتقل کرنے والا ہے “ روزی دینے والا نہیں ہے ۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پروردگار فنا ہو جانے والے مال کے بدلے باقی رہنے والی نعمت عطا کرتا ہے اور”قلیل “ مال کے عوض میں ”کثیر“ نعمت عطا کرنے والا ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12