اسلام میں انفاق کی اہمیت



ایسے معاشرہ میں پریشانی،اضطراب،بد بینی وبد گمانی اور سب سے اہم چیز دشمنی اورعداوت حتمی اور یقینی چیز ہے ۔

اگر چہ یہ اضطراب گذشتہ انسانی معاشروں میں بھی موجود تھا لیکن ہمارے زمانہ میں طبقاتی فاصلے زیادہ اور خطرناک شکل اختیار کر چکے ہیں اس لئے کہ ایک طرف سے انسانی امداد اور واقعی تعاون کے دروازے بند ہو چکے ہیں تو دوسری طرف سے سود خوری،طبقاتی فاصلہ کا ایک اہم سبب ہے ۔ کے دروازے مختلف شکلوں میں کھل چکے ہیں

کمیونزم اور اس کے جیسے دوسرے مکاتب فکرکا وجودمیں آنا، خونریزیاںاور اس صدی میں چھوٹی بڑی وحشتناک اور تباہ کن جنگوں کا واقع ہونا جو آج بھی دنیا کے گوشہ و کنار میں جاری ہیں،انسانی معاشرہ کی اکثریت کی محرومیت کا ردِعمل اور نتیجہ ہیں ۔دانشمندوں اور مفکرین نے سماج کی ہر مشکل کوحل کرنے کی فکر کی اور ہر ایک نے ایک راہ اور جدا جدا راہوں اور طریقہٴ کار کاانتخاب کیا،کمیونزم نے ذاتی اور شخصی مالکیت کو ختم کر کے، سرمایہ داری نے زیادہ سے زیادہ مالیات اور ٹیکس لے کر اور عام فلاحی اداروں (جن میں زیادہ تر نمائشی ہیں چہ جائےکہ حاجت مندوں کی مشکل حل کریں)کو تشکیل دے کراپنے اپنے گمان میں اس مشکل کے مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ کوئی بھی اس راہ میں موٴثر قدم نہیں اٹھا سکا ہے اس لئے کہ اس مشکل کا حل،مادیت اور مادی افکار کے ذریعہ ممکن نہیں ہے جو پوری دنیا پر حاکم ہے اس لئے کہ مادی تفکر میں بلا غرض اوربلااجرت مدد اور تعاون کی کوئی جگہ نہیںہے ۔

آیات قرآنی میں غور وفکر کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ وہ نظام جو سماج کی غیر منصفانہ اور ظالمانہ روش سے سرمایہ دارانہ اور غربت و افلاس کے دوطبقوں میںبٹ چکا ہے اس کا خاتمہ کر دے اور جو لوگ اپنی زندگی کی ضروریات کو دوسروں کی مددکے بغیر پورا نہیں کر سکتے ان کی سطح کو اتنا بلند کر دے کہ کم سے کم ضروریات زندگی کے مالک ہوں ۔ اسلام نے اس مقصد اور ہدف تک رسائی کے لئے ایک وسیع نظام اور قانون کو مدنظر رکھا ہے ۔

سودخوری کو مکمل طریقہ سے حرام قرار دینا،اسلامی مالیات(ٹیکس) جیسے زکوٰة، خمس، وغیرہ کی ادائےگی کو واجب قرار دینا ،انفاق،وقف،قرض ا لحسنہ اور مختلف مالی امداد کی تشویق کرنا ،اس نظام کا ایک حصہ ہے اور سب سے اہم چیز لوگوں میں روحِ ایمان، بھائی چارگی اور مساوات کو زندہ کرنا ہے ۔

 

ایک خوبصورت مثال

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اموالھم فی سبیل اللہ کمثل جنة( بقرہ/۲۶۱)

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیہٴ کریمہ میں انفاق سے مراد راہ جہاد میں انفاق اور خرچ کرنا ہے اس لئے کہ اس آیت سے پہلے والی آیتوں میں جہاد کا تذکرہ ہوا ہے ۔ لیکن واضح سی بات ہے کہ یہ مناسبت انفاق کو جہاد سے مخصوص کرنے کا سبب نہیں بنتی ۔ اس لئے کہ کلمہٴ سبیل اللہ جو کہ بطور مطلق ذکر ہوا ہے ہر قسم کے جائز خرچ اور مصرف کو شامل ہے ۔ اس کے علاوہ اس آیت کے بعد کی آیات، جہاد کے بارے میں نہیں ہیں ۔ اسلئے کہ - ”انفاق“ کی بحث کو مستقل طور پر بیان کیا جا رہا ہے ۔ اورتفسیر مجمع البیان کے نقل کے مطابق روایات میں بھی آیت کے عمومی معنیٰ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

بہرحال اس آیہٴ کریمہ میںراہ ِخدا میں انفاق کرنے والوں کو با برکت دانہ سے تشبیہ دی گئی ہے جو زرخیز زمین میں بوئے جائیں جبکہ ان افراد کو دانہ سے تشبیہ نہیں دینا چاہئے تھا بلکہ ان کے انفاق کو دانہ سے تشبیہ دینا چاہیئے یا ان لوگوں کو کسانوں سے تشبیہ دینا چاہئے تھاجو دانہ چھڑکتے اور بوتے ہیں ۔ اسی وجہ سے بعض مفسرین نے کہاہے کہ اس آیت میں ایک کلمہ حذف کر دیا گیا ہے (”اَلَّذِیْنَ“) سے پہلے کلمہ ”صدقات“ تھا یا کلمہ ”حبة“ سے پہلے”باذر“تھا)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next