اسلام میں انفاق کی اہمیت



مذکورہ باتوں کے پیش نظر ایسے دانے بھی پائے جاتے ہیں جو سات سودانوں سے کئی گنا دانے دیتے ہیں لہٰذا یہ تشبیہ ایک حقیقی تشبیہ ہے ۔

آیت کے آخری جملہ میں پروردگار کی قدرت اور علم کی وسعت کیطرف اشارہ کیا گیا ہے تاکہ انفاق کرنے والے بھی اس بات سے آگاہ ہوجائیں کہ خداوندِعالم ان کے عمل اور نیت سے بھی آگاہ ہے اور انہیں ہر طرح کی برکت عطا کرنے پر قادر بھی ہے ۔

۲ . نماز، انفاق کے ساتھ

پروردگارِعالم ارشاد فرماتاہے:

< اَلَّذِیْنَ یُوٴْ مِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰةَوَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُوْنَ>

متقین وہ لوگ ہیں جو غیب پرایمان رکھتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور وہ تمام نعمتیں جو ہم نے ان کو روزی کے طور پر دی ہیں ان میں سے انفاق کرتے ہیں ۔ ( سورہٴ بقرہ:آیت۳)

بے شک صاحبانِ ایمان نماز کے ذریعہ اپنے پروردگار سے رابطہ کے علاوہ خلق خدا سے بھی بہت قریبی اور دائمی رابطہ رکھتے ہیں ۔ اسی بنا پرصاحبانِ ایمان کی تیسری صفت کو مذکور ہ آیت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: اور جو نعمتیںہم نے انہیں روزی کے طور پر دی ہیں ان میںسے انفاق کرتے ہیں ۔(وَمِمَّا رَزَقْنَا ھُمْ یُنْفِقُوْنَ)

قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن کریم یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ:”مِنْ اَمْوَالِھِمْ یُنْفِقُوْنَ“(وہ اپنے اموال میں سے انفاق کرتے ہیں)بلکہ فرما رہا ہے: ”وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ“ہم نے جو انہیں روزی دی ہے، اس میں سے انفاق کرتے ہیںاس بیان کے ذریعہ پروردگار عالم نے مسئلہ انفاق کو اتنی عمومیت اوروسعت دے دی ہے جو ہر قسم کی مادی اور معنوی نعمت کو شامل کئے ہوئے ہے ۔

لہٰذا متقی اور پرہیز گار وہ افراد ہیں جونہ صرف اپنے اموال سے بلکہ اپنے علم، عقل، جسمانی قوت،سماج میں اپنے اثرورسوخ اور مقام ومنزلت اور ہر سرمایہ میں سے جزااور بدلے کی امید کے بغیر،حاجتمندوں کو عطا کرتے ہیں ۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ انفاق اس کائنات کا ایک عمومی قانون ہے خاص طور سے ہر زندہ موجود کے بدن میں بھی یہ قانون پایا جاتا ہے ۔ انسان کا دل صرف اپنے لئے کام نہیں کرتا ہے بلکہ جو کچھ اسے حاصل ہوتا ہے وہ اس میں سے سارے خلیوں پر انفاق کرتا ہے ۔دماغ ،آنتیں اور بدن کے دوسرے تمام اعضاء سب کے سب اپنے عمل سے حاصل ہونے والے نتیجہ میں سے ہر وقت انفاق کرتے رہتے ہیں قاعدةً اجتماعی زندگی انفاق کے بغیر بے معنی ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next