بدزبانى كرنے والوں سے درگزر



اگر تم معاف كردو تو يہ تقوي سے قريب ہے_

عفو اور درگذر ہر حال ميں تقوي سے نزديك ہے اسلئے كہ جو شخص اپنے مسلم حق سے ہاتھ اٹھالے تو اس كا مرتبہ محرمات سے پرہيز كرنے والوں سے زيادہ بلند ہے(2)

رسول خدا (ص) اور اءمہ معصومين (عليہم السلام) پر جن لوگوں نے ظلم ڈھائے ان كے ساتھ رسول خدا (ص) اور اءمہ اطہار كا ہم كو كچھ اور ہى سلوك نظر آتاہے جن لوگوں نے اپنى طاقت كے زمانہ ميں حقوق كو پامال كيا اور ظلم و ستم كا بازار گرم ركھا جب وہى افراد ذليل و رسوا ہوكر نظر لطف و عنايت كے محتاج بن گئے تو رسول خدا (ص) اور اءمہ اطہار نے ان كو معاف كرديا_

امام زين العابدين (ع) اور ہشام

بيس سال تك ظلم و استبداد كے ساتھ حكومت كرنے كے بعد سنہ 86 ھ ميں عبدالملك بن مروان دنيا سے رخصت ہوگيا اس كے بعد اس كا بيٹا وليد تخت خلافت پر بيٹھا اس نے


1) (بقرہ 237)_

2) (الميزان ج2 ص 258)_

 

162

لوگوں كى توجہ حاصل كرنے اور عمومى مخالفت كا زور كم كرنے كے لئے حكومت كے اندر كچھ تبديلى كى ان تبديليوں ميں سے ايك تبديلى يہ تھى كہ اس نے مدينہ كے گورنر ہشام بن اسماعيل كو معزول كرديا كہ جس نے اہلبيت (عليہم السلام) پر بڑا ظلم كيا تھا جب عمر بن عبدالعزيز مدينہ كا حاكم بنا تو اس نے حكم ديا كہ ہشام كو مروان حكم كے گھر كے سامنے لاكر كھڑا كياجائے تا كہ جو اس كے مظالم كا شكا رہوئے ہيں وہ آئيں اور ان كے مظالم كى تلافى ہوجائے_لوگ گروہ در گروہ آتے اورہشام پر نفرين كرتے تھے اور اسے گالياں ديتے تھے، ہشام على بن الحسين (ع) سے بہت خوفزدہ تھا اور يہ سوچ رہا تھا كہ ميں نے چونكہ ان كے باپ پر لعن كيا ہے لہذا اسكى سزا قتل سے كم نہيں ہوگى ، ليكن امام (ع) نے اپنے چاہنے والوں سے كہا كہ : يہ شخص اب ضعيف اور كمزور ہوچكاہے اخلاق كا تقاضا يہ ہے كہ ضعيفوں كى مدد كرنى چاہئے، امام (ع) ہشام كے قريب آئے اور آپ(ع) نے اس كو سلام كيا ، مصافحہ فرمايا اور كہا كہ اگر ہمارى مدد كى ضرورت ہو تو ہم تيار ہيں ، آپ (ع) نے اپنے اصحاب سے فرمايا كہ : تم اس كے پاس زيادہ نہ جاو اس لئے كہ تمہيں ديكھ كر اس كو شرم آئے گى ايك روايت كے مطابق امام (ع) نے خليفہ كو خط لكھا كہ اس كو آزاد كردو اور ہشام كو چند دنوں كے بعد آزاد كرديا گيا_(1)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next