آج کے دور میں اسلامی قوانین کی معنویت



انسانی قانون کی بنیاد محض خاندانی رسوم وروایات اور علاقائی عرف وعادات پر ہے اس لئے اس میں تعصبات وتنگ نظری کی تمام آلودگیاں موجود ہیں اس میں علمی اور فلسفیانہ بنیادوں کی آمیزش نہیں ہے، جبکہ اسلامی قانون کی بنیاد روز اوّل ہی سے انسانی فطرت اور ہدایت الٰہی پر ہے، یہ ابتداہی سے عالمگیر اور فلسفیانہ بنیادوں پر تعمیرہوا ہے، انسانی قانون ہزاروں سال کے ارتقاء کے بعد جس منزل پر پہنچے گا اسلامی قانون کا پہلا قدم ہی وہاں سے اٹھا ہے ۔

 

قانونی وحدت

قانون میں وحدت ویکسانیت بھی ایک ضروری چیز ہے انسانی قانون میں اصل کے لحاظ سے وحدت ویکسانیت موجود نہیں ہے اس لئے کہ اس کے سرمایے میں خاندانی روایات اور قومی عرف وعادات کا بڑا حصہ ہے جو ہر علاقہ اور خاندان کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں... جبکہ اسلامی قانون شروع سے وحدت کے اصول پر قائم ہے اس لئے کہ اس کی بنیاد رسم وروایات کے بجائے ہدایت الٰہی پر ہے، حضرت آدم عليه السلام سے لے کر حضور صلى الله عليه وسلم تک تمام انبیاء کے قوانین ایک ہی وحدت کے ساتھ وابستہ ہیں، خود قرآن اس کی شہادت دیتا ہے ۔

شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحاً والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم وموسیٰ وعیسیٰ أن أقیموا الدین ولا تفرقوا فیہ (شوریٰ:۱۳)

ترجمہ: تمہارے لئے بھی اسی دین کو مشروع کیا ہے جس کی تعلیم نوح کو دی تھی اور اے پیغمبر! یہ بھی جس کی وحی ہم نے تمہاری طرف کی ہے اور یہی دین ہے جس کی تعلیم ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو دی تھی کہ اس دین کو قائم کریں اور اس میں اختلاف نہ کریں ۔

 

سرچشمہٴ قانون

اسی طرح انسانی قانون چند انسانی ذہنوں کی پیداوار ہے جبکہ اسلامی قانون خود خالق کائنات کا دیا ہوا عطیہ ہے اور آج اس حقیقت کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں کہ انسان کبھی خود اپنے لئے قانون مرتب نہیں کرسکتا، اس لئے کہ انسان محدود علم واحساس رکھتا ہے وہ کروڑوں انسانوں کی نفسیات کا قدر مشترک معلوم نہیں کرسکتا اور تمام لوگوں کے احساسات وطبائع کو ملحوظ رکھتے ہوئے قانون سازی ہرگز نہیں کرسکتا، قانون خواہ کتنے ہی اخلاص کے ساتھ بنایا جائے مگر اس میں طبعی میلانات اور ذاتی رجحانات کا اثر ناگزیر طور پر آئے گا... اس لئے قانون سازی کا حق صرف خالق کائنات کو ہے ۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 next