تاریخ حضرت داؤد (ع) قرآن کی روشنی میں



حضرت داؤد عليہ السلام نے دوسرے فريق كى بات سنے بغير شكايت كرنے والے سے كہا:''اپنى بھيڑوں ميں تيرى بھيڑكا اضافہ كرنے كے لئے اس نے تقاضا كر كے ظلم روا ركھا ہے''_(4)

بہر حال يوں لگتا ہے كہ طرفين يہ بات سن كر مطمئن ہوگئے اور حضرت داؤد عليہ السلام كے يہاں سے چلے گئے_ليكن داؤد عليہ السلام سوچ ميں پڑگئے_ انھوں نے فيصلہ تو عدل كى بنياد پر كيا تھا كيونكہ اگر فريق ثانى كو مدعى كا دعوى قبول نہ ہوتا تو يقينا وہ اعتراض كرتا ہے_اس كا سكوت اس امر كے لئے بہترين دليل تھا كہ معاملہ وہى ہے جو شكايت كرنے والے نے پيش كيا ہے ليكن ان سب امور كے باوجود عدالتى اقدار كا تقاضا تھا كہ داؤد عليہ السلام اپنى بات ميں جلدى نہ كرتے بلكہ فريق ثانى سے بھى شخصاً سوال كرتے اور پھر فيصلہ سناتے_ لہذا اس كام پر وہ خود پشيمان ہوئے ،اور داؤد(ع) نے گمان كيا كہ اس واقعے كے ذريعے ،ہم نے اس كاامتحان ليا ہے_


(1)سورہ ص، آيت22

(2)سورہ ص، آيت22

(3)سورہ ص، آيت23

(4)سورہ ص، آيت24

 

461

''اس نے استغفار كي،اپنے رب سے طلب بخشش كي،سجدے ميں گرگيا اور توبہ كي''_(1)

بہر حال اللہ نے ان پر اپنا لطف و كرم كيا اور اس ترك اولى ميں ان كى لغزش كو معاف كرديا_ جيسا كہ بعد كى ابحاث ميں قرآن كہتا ہے:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next