تاریخ حضرت داؤد (ع) قرآن کی روشنی میں



''ہم نے اس كے عمل كو بخش ديا،اور وہ ہمارے نزديك عالى مقام او رنيك مستقبل كا حامل ہے''_(2)

داؤد عليہ السلام كو پيش آمدہ واقعے كى حقيقت

قرآن مجيد سے جو كچھ معلوم ہوتا وہ اس سے زيادہ نہيں كہ كچھ افراد داد خواہى كے لئے حضرت داؤد عليہ السلام كى محراب سے اوپر چڑھ كر آپ كى خدمت ميں پہنچے_پہلے تو آپ گھبر گئے_ پھر شكايت كرنے والے كى بات سني_ان ميں سے ايك كے پاس ننانوے بھيڑيں تھيں،دوسرے كے پاس صرف ايك بھيڑ تھي،ننانوے بھيڑوں والا اپنے بھائي پر زور دے رہا تھا كہ وہ ايك بھيڑ بھى اسے دےدے_ آپ(ع) نے شكايت كرنے والے كو سچا قرار ديا اور دوسرے كے اصرار كو ظلم قرار ديا_ پھر اپنے كام پر پشيمان ہوئے اور اللہ سے معافى كا تقاضا كيا_خدا نے آپ(ع) كو بخش ديا_

يہاں دو تعبير زيادہ غور طلب ہيں_ ايك آزمائشے اور دوسرى استغفار اور توبہ_ اس سلسلے ميں قرآن نے كسى واضح امر كى نشاندہى نہيں كي_ليكن قرآن ميں غور و فكر اور ان آيات كى تفسير كے سلسلے ميں منقول روايات ميں موجود قرائن سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت داؤدعليہ السلام قضاوت ميں بہت زيادہ علم و مہارت ركھتے تھے اور اللہ تعالى چاہتا تھا كہ آپ(ع) كو آزمائے لہذا آپ(ع) كو ايسے غير معمولى حالات پيش آئے_(مثلاًان آدميوں كا عام راستے سے ہٹ كر محراب كے اوپر سے آپ(ع) كے پاس آپہنچا) آپ(ع) نے جلد باز ى كى اور اس سے پہلے كہ فريق ثانى سے وضاحت طلب كرتے آپ(ع) نے فيصلہ سناديا اگرچہ فيصلہ عادلانہ تھا_


(1)سورہ ص، آيت 24

(2)سورہ ص، آيت 25

 

462

اگر چہ آپ(ع) بہت جلد اپنى اس لغزش كى طرف متوجہ ہوگئے اور وقت گزرنے سے پہلے اس كى تلافى كي_ليكن بہر حال جو كام آپ(ع) سے سرزد ہوا تھا وہ نبوت كے مقام بلند كے شايان شان نہ تھا_اس لئے آپ(ع) نے ترك اولى پر استغفار كى اور اللہ نے بھى انہيں عفو و بخشش سے نوازا_

مذكورہ تفسير كى شاہد وہ قرآنى اشارہ ہے جو زير بحث قرآنى گفتگو كے فوراً بعد آئي ہے_اس ميں حضرت داؤد عليہ السلام سے خطاب كرتے ہوئے فرمايا گياہے:''ہم نے تجھے زمين پر اپنا خليفہ قرار ديا ہے،لہذا لوگوں كے درميان حق و عدالت كے مطابق فيصلہ كر اور ہوا و ہوس كى پيروى نہ كر''_



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next